توبہ کے احکام
ایک لڑکی کو چوری کرنے کی عادت ہے نماز روزے نہیں پڑھتی تھی اب توبہ کرنا چاہتی ہے۔
سوال: مجھے جب سے ہوش آیا ہے میں اس وقت سے چوری کی لت میں پڑی ہوئی ہوں، مجھے اس غلطی کا پتا بھی تھا، چنانچہ کچھ دن ایسے بھی آتے کہ میں چوری کرنے سے باز آ جاتی اور اللہ سے معافی مانگتی لیکن پھر دوبارہ چوری کرنے لگتی، میری اس عادت کی وجہ سے میرے اپنے سسرال والوں کے ساتھ جھگڑے بھی ہوئے، تو اس کے بعد میں نے اٹل فیصلہ کر لیا کہ میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گی، پھر تقریباً ایک سال تک میں نے چوری نہیں کی، لیکن پھر دوبارہ سے یہ کام شروع کر دیا اور چھوٹی چھوٹی چیزیں چوری کرنا شروع کر دیں، جو کہ بڑھتے بڑھتے بڑی چیزیں چوری کرنے تک پہنچ گئی، اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کس طرح اس لت سے اپنی جان چھڑا سکتی ہوں؟ میں نے اس بارے میں بڑے اچھے اچھے خطاب سنے ہیں میں نے تقریباً ہر حربے کو آزما کر دیکھ لیا ہے، اب مجھے یہ بھی علم نہیں ہے کہ میں نے کس کس کی پنسل چوری کی یا پیسے اٹھائے یا جوس چوری کیا یا چاکلیٹ اٹھائی، مجھے یہ یاد ہے کہ میں نے اپنے خاوند کے پرس سے پیسے چوری کیے تھے، اسی طرح اپنی ایک بڑی اچھی سہیلی کے بیگ سے پیسے چوری کیے ہیں، امی اور ابو کے پیسے بھی چوری کیے ہیں، میں نماز نہیں پڑھتی تھی اور نہ ہی رمضان کے روزے رکھتی تھی، مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کتنی بار اپنا روزہ خراب بھی کیا، میں انہیں گن نہیں سکتی، تو کیا میں کافر ہو چکی ہوں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے بخشش مل جائے؟ میں اللہ کے قریب کیسے ہو سکتی ہوں؟ندامت؛ توبہ کا عظیم ترین رکن
میں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور گناہ چھوڑ دیا، میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ دوبارہ وہ گناہ نہیں کرنا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں کوئی ندامت پیدا نہیں ہوئی، یہ کیسے دل میں پیدا ہو گی؟ کیونکہ اسے پیدا کرنا بہت مشکل ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ندامت کوئی عملی کام نہیں ہے ، نہ ہی یہ مکلف شخص کے بس کی بات ہے؛ کیونکہ ندامت کا تعلق جذبات سے ہے عمل سے نہیں اور جذبات انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ تو ایسے میں ندامت کو ضروری کیوں قرار دیا گیا حالانکہ ندامت مکلف کے اختیار میں ہی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی عملی کام ہے؟ اور کیا میں اللہ سے دعا کروں کہ اللہ تعالی میرے دل میں ندامت ڈال دے؟لڑکے نے اپنے والدین سے بد تمیزی کی اب دونوں کی وفات کے بعد پشیمان ہے، تو اب وہ کیا کر سکتا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ بد سلوکی کرتا رہا ہوں، اور پھر ان کے فوت ہو جانے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو تو اپنی اس غلطی کی معافی کے لیے کیا کرے؟چھوٹی عمر میں کسی کے پیسے چوری کئے، جو کہ بعد میں بذریعہ ڈاک اسے بھیج دئیے، لیکن اسے ڈاک وصول ہونے کے بارے میں شک ہے، تو اب کیا کرے؟
سوال: میری عمر پچاس سال ہے، اور کنیڈا میں رہتا ہوں، جب میری عمر 27 سال تھی اور اسوقت میں امریکہ میں پڑھتا تھا، ساتھ میں ایک کافی سینٹر پر کام بھی کرتا؛ تا کہ اپنی یونیورسٹی کی پڑھائی کے اخراجات نکال سکوں، یہ کافی سینٹر امریکہ کے ایک عیسائی خاندان کی ملکیت تھا، جبکہ اسکا ڈائریکٹر ایک انڈین عیسائی شخص تھا، ہم اکٹھے کسٹمرز کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے تھے، اور اس جیسی جگہوں پر لوگوں کی عادت ہے کہ کھانے پینے کے برتنوں میں ٹِپ [بخشیش] کے پیسے چھوڑ جاتے ہیں، ان پیسوں کو انڈین ڈائریکٹر اپنے پاس جمع کر لیتا، اور دیوٹی ختم ہونے پر میرا حصہ میرے کھاتے میں ڈال دیتا، یہ تقریبا 20 سے 60 ڈالر کے مابین رقم ہوتی تھی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ میرے کھاتے میں پیسے جمع نہیں کرتا تھا، بلکہ ٹپ سے حاصل ہونے والے پورے پیسے خود ہی رکھ لیتا تھا، لیکن اسکے باوجود میں نے اسکے ساتھ کام جاری رکھا، اور ایک بار ایسا ہوا کہ اس نے مجھے اضافی کام کے باوجود بھی کچھ نہیں دیا، تو میں نے خود ہی کسی کو پتا چلے بغیر 20 ڈالر اپنے لئے نکال لئے۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ یہ چوری ہے، تو میں نے کافی سینٹر کے مالک کو بذریعہ ڈاک یہ پیسے بھیج دئے اور ساتھ میں نامعلوم سا پیغام بھی دے دیا، جس میں لکھا تھا: "آپ کے پاس کام کرنے کے وقت سے مجھ پر تمہارا یہ قرضہ ہے" اب مجھے نہیں معلوم کہ مالک میرے خط کے پہنچنے تک زندہ بھی تھا یا نہیں؟ اسی طرح یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ پیسے اس نے وصول بھی کئے ہیں یا نہیں؟ مندرجہ بالا کے بارے میں آپکی کیا رائے؟ اور اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ میں اس ماجرے کی وجہ سے قیامت کے دن اپنا حساب لمبا نہیں کرنا چاہتا، مجھے زندگی میں لمبے حصے سے بد بختی نے گھیرا ہوا ہے، اور راتوں کو مجھے نیند بھی نہیں آتی، میں خود اپنے بارے میں حیران ہوں، میں نے اپنی عزت آپ گنواں دی ہے، میں آپ سے پندو نصائح چاہتا ہوں۔ایک لڑکی خود لذتی کی بیماری میں مبتلا ہے، ہر بار توبہ کرنے کے باوجود دوبارہ ملوث ہو جاتی ہے!!
سوال: میں نوجوان لڑکی ہوں اور خود لذتی کی بیماری میں مبتلا ہوں، میں نے کئی بار اس برائی کو چھوڑا ہے لیکن دوبارہ پھر اس میں مبتلا ہو جاتی ہوں، میں نے کئی بات توبہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن پھر دوبارہ اسی غلطی میں مبتلا ہو جاتی ہوں، لیکن جب بھی غلطی کر تی ہوں تو مجھے بہت زیادہ دکھ اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ تو کیا اس گناہ سے بچنے کیلیے کوئی کار آمد طریقہ ہے؟ کہ میں دوبارہ اس کام میں ملوث نہ ہو سکوں، اور کیا اللہ تعالی میری توبہ قبول فرماتا ہے؟ میں نے خود لذتی کی جگہ پر کئی بار اپنے آپ کو جلانے کی کوشش بھی کی لیکن میں پھر دوبارہ اسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہوں!گناہ کرنے کے کئی طریقوں کا عادی ہوگیا ، اور صرف ایک طریقے سے گناہ نہ کرنے کا اللہ سے وعدہ کیا۔
میں جو کچھ بھی ہوا سب بیان کرونگا، میرا سوال یہ ہے کہ میں وقفے وقفے سے مختلف طریقوں سے گناہ کیا کرتا تھا، ایک دن میں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ ایک طریقے کو چھوڑ دونگا، میں نے اُسی وقت سجدہ کیا، اور اللہ سے دعا کی، اگر میں نے دوبارہ گناہ کیا تو میرے اعضاء کو فالج میں مبتلا کردینا، اس دعا کے دوران میں نے ایک طریقے کو تحدید کرتے ہوئے ذکر بھی کیا، اس لئے کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں صرف ایک طریقے سے گناہ نہیں کرونگا، جبکہ دوسرے طریقے کے بارے میں میرا ذہن یہ تھا کہ میں اُس کے ذریعے گناہ کرتا رہونگا، میری دعا میں کچھ غیر مناسب الفاظ بھی تھے، پھر ایک ماہ بعد ہی میں وہی گناہ کر بیٹھا جس کے نہ کرنے کا میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا، مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں نے اپنی دعا میں اللہ تعالی کا ادب ملحوظِ خاطر نہیں رکھا تھا۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ انداز دعا میں لغو شمار ہوگا؟حج اور توبہ کرنے سے حقوق اللہ، حقوق العباد اور مقتول کے حقوق بھی ساقط ہو جاتے ہیں؟
سوال: فریضہِ حج ادا کرنے کے بعد ہم یہ جانتے ہیں کہ اس سے غلطیاں اور کبیرہ گناہ مٹ جاتے ہیں، یعنی اللہ تعالی اپنے حقوق معاف کر دیتا ہے، اور جہاں تک مجھے علم ہے کہ حج کرنے سے حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے، میرا سوال یہ ہے کہ: آپ نے پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ: جو شخص کسی بھی گناہ سے توبہ کرے چاہے وہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو تو سچی توبہ کے باعث اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا، اس بارے میں آپ نے اس آیت کو دلیل بنایا ہے: (قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں [٧١] پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے[الزمر:53] اسی اللہ تعالی نے کبیرہ ترین گناہوں کی بخشش کے بارے میں فرمایا: (وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً [68] يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً [69] إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً) اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا[68] قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کردیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا[69] ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان [٨٧] لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان:68-70] اور بخاری و مسلم (2766) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص نے 99 قتل کیے تھے۔۔۔ الخ) الحدیث، لیکن سوال یہ ہے کہ حقوق العباد کہاں جائیں گے؟ کیونکہ کیا قاتل توبہ کر لے تو اسے بھی بخش دیا جائے گا؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا شخص جہنم میں جائے گا، اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ آخری حدیث جس میں نناوے قتل کا ذکر ہے کہ قاتل نے 100 کا عدد جان بوجھ کر مکمل کیا لیکن پھر بھی وہ جنت میں داخل ہو گیا، یہاں ان مقتولین کے حقوق کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔حد كے بغير توبہ كى قبوليت
ميرا ايك سوال ہے جو مجھے پريشان كيے ہوئے ہے، اور ميں اس كے متعلق سوچتا رہتا ہوں: جب كوئى شادى شدہ يا غير شادى شدہ شخص فحش كام اور كبيرہ گناہ چورى اور غيبت اور سود وغيرہ كا مرتكب ہو، اور بہت عرصہ اس كا مرتكب رہا ہو، پھر اس نے اللہ تعالى كو جان ليا اور خالص اللہ كى رضا كى ليے سچى توبہ كر لى، اور جن لوگوں كى غيبت كى تھى ان سے معافى بھى طلب كى، اور چورى كا مال واپس كر ديا، اور سود كے مال سے بھى خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر ليا، اور زنا و شراب نوشى، اور نمازوں ميں كوتاہى جيسے كام اس كے اور اللہ كے مابين تھے ان سے بھى توبہ كر لى، اور دوبارہ ان كا ارتكاب نہ كيا، ليكن اس شخص كو حد نہ لگے تو كيا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر لےگا ؟ اور كيا اس كى ادا كردہ عبادت قبول ہو گى، چاہے گناہ كتنے بھى زيادہ ہوں، يا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول نہيں كريگا، اور اس كى عبادت رد كر ديگا ؟ اور كيا اللہ تعالى اسے عذاب قبر سے نجات دے ديگا، اور آگ ميں داخل نہيں كريگا ؟ اور اسے اللہ تعالى كو راضى كرنے اور عذاب سے بچنے كے ليے كونسے عمل كرنا ہونگے ؟توبہ کی قبولیت
مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سر زد ہو گیا ہے، میں نے اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش بھی مانگی ہے، اور بہت دعا کی ہے کہ اللہ تعالی مجھے معاف کر دے، تو کیا اس گناہ سے میری توبہ قبول کر لی جائے گی؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری توبہ قبول نہیں ہوئی، اور میں ابھی بھی اللہ تعالی کے زیر غضب ہوں! تو کیا ایسے کچھ اشارے ہوتے ہیں جو قبولِ توبہ کی نشانی ہوں؟لواطت سے توبہ کرنا چاہتااورتعاون کا محتاج ہے
میں دین اسلام کا التزام کرنے والا مسلمان ہوں اورایک طویل عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا ، مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی مجھے جنسی بیماری کا شکار کرلیا گیا ، اوراب میری یہ حالت ہے کہ میں مردوں اور عورتوں کا رسیا ہوچکا ہوں میرے اندر یہ چيز پائ جاتی ہے لیکن مجھے اس سے چھٹکارا نصیب نہیں ہورہا اورپتہ نہیں میں اس سے کس طرح نجات حاصل کرسکتا ہوں ۔ میں ہمیشہ تواس معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا لیکن بعض اوقات اس کا ارتکاب ہوجاتا ہے ، اورمیں اس فعل پر نادم رہتا ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی جنسی انحراف کوپسند نہیں فرماتا ، لیکن مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اپنے آپ کا تعاون کروں اوراس سے رک جاؤں ۔ اپنے آپ کوبدلنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہيں ہوا ، میں نے اللہ سبحانہ وتعالی سے بھی تعاون مدد طلب کی ہے ، اورمسلمانوں کے سامنےاس کا اعتراف بھی کیا ہے تا کہ وہ میرا تعاون کریں لیکن ؟ اسی طرح میں ماہر نفسیات کے پاس بھی گيا ہوں مجھے اللہ تعالی اور اس کےدین سے محبت ہے لیکن میرے معاملات اس محبت کے خلاف ہیں میں ہمیشہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں اس بیماری کا شکارہوں جس کی بنا پر مجھے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ شریعت اسلامیہ لواطت کرنے والے کوقتل کرنے کا حکم کیوں اورکس لیے دیتی ہے ۔ میرے سب دوست واحباب مسلمان ہیں اوردین کا التزام کرنےوالوں میں سے ہيں ، لیکن شیطان کی کوشش ہے کہ وہ میرے اورمیرے دوست واحباب کے ایمان کوتباہ کردے ۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرا تعاون کرتے ہوۓ اس کا کوئی حل بتائيں اگرچہ وہ حل دنیا کے کسی کونے میں ہو اورمیں وہاں جانے کی تکلیف کروں گا ، اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اب دوبارہ اس قبیح اورگندے عمل کودہراؤں ۔ اورنہ ہی ميں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے بندوں میں سے کسی شخص پر خطرہ بنا رہوں ۔توبہ
میں نے اتنے گناہ کئے ہیں کہ اللہ ہی جانتا ہے، اب میں کیا کروں کہ اللہ تعالی میری توبہ قبول فرمائے؟زنا كرنے كےبعد اسلام قبول كرے توكيا اسے حد لگےگي
كافر نےزنا كرنےكےبعد اسلام قبول كرليا تو كيا اس پر حد جاري ہوگي ؟