خانگی فقہ
صحابہ کرام طلاق کیوں دیا کرتے تھے حالانکہ بنیادی طور پر طلاق دینا منع ہے؟
آپ نے متعدد سوالات کے جوابات میں کہا ہے کہ بلا وجہ یا معمولی اور فضول نوعیت کے اسباب کی وجہ سے طلاق دینا حرام اور مکروہ ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض نے بہت زیادہ طلاقیں کیوں دی ہیں؟ وہ تو طلاق کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، اور پھر صحابہ کرام نے جنہیں طلاق دی وہ عام طور پر صحابیہ یا نہایت نیک ہوتی تھیں، مثال کے طور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے 30 سے زائد عورتوں کو بلا وجہ طلاق دی؛ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ طلاق دینا مکروہ ہے؟ یا پھر اس وقت طلاق دینا رواج تھا کہ دیندار عورتوں کو بھی طلاق دے دی جاتی تھی؟جب بھی کسی سہیلی کی شادی ہوتی ہے تو اسے اپنی شادی دیر سے ہونے کی فکر کھا جاتی ہے۔
ہمیشہ سے ایسا ہو رہا ہے کہ جب بھی میں اپنی شادی شدہ سہیلیوں کو دیکھتی ہوں، یا جن کی منگنی ہو گئی ہے انہیں دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ میری اپنی شادی کی عمر گزر رہی ہے؛ اور چونکہ مجھے کوئی دیکھتا نہیں ہے کیونکہ میں گھر میں رہتی ہوں تو اس لیے میری کبھی بھی شادی نہیں ہو گی، میں گھر میں ہی رہو، باہر نہ نکلوں اور مجھے کوئی دیکھے بھی نہ ، نہ میری ملازمت ہو تو میرا رشتہ مانگنے کے لیے کوئی کیسے آئے گا؟ اور اسی طرح اگر میرا رابطہ لڑکوں سے نہ ہو تو ایسا شخص کہاں سے آئے گا جو مجھ سے شادی کرے؟ آپ مجھے کیا نصیحت کرتے ہیں؟ اس بارے میں صحیح اقدامات کیا ہیں جن کو عملی جامہ پہنایا جائے؟ میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ شادی سے قبل مرد کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، اور آپس میں بات چیت کے لیے وقت نکالنا چاہیے تا کہ شادی کے بعد کوئی بری چیز سامنے نہ آئے، کیا یہ سوچ ٹھیک ہے؟ یا یہ کہ براہ راست شادی ہی کر لینی چاہیے ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے؟بچوں کی پرورش میں مشکلات سن کر شادی سے کتراتا ہے۔
میرا مسئلہ شادی کے متعلق ہے، میری عمر اس وقت 29 سال ہے اور ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی؛ حالانکہ میری ملازمت بھی ہے اور میں شادی کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہوں، لیکن شیخ صاحب! جب میں شادی کے مسائل سنتا ہوں، بچوں کی تربیت کے حوالے سے سننے میں آتا ہے کہ بہت مشکل ہے، جس وقت میں بچوں کی جانب سے والدین کی نافرمانی کے واقعات سنتا اور پڑھتا ہوں تو شادی کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے لگتا ہوں۔ واضح رہے کہ میں ان شاء اللہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں، مجھے یہ بات اپنے والدین کی میرے بارے میں دعا سے معلوم ہوئی، میرے والدین میرے متعلق کہتے ہیں کہ الحمد للہ وہ مجھ سے راضی ہیں، میرے والد کا کہنا ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے تم جیسا بیٹا عطا کیا ہے۔ میرے والدین چاہتے ہیں کہ میں شادی کر لو، لیکن جس وقت میں شادی کا ارادہ کرتا ہوں تو شدید قسم کے خوف سے دوچار ہو جاتا ہوں، شادی کے بغیر میں اپنے آپ کو بہتر سمجھتا ہوں لیکن جب میں اپنے والدین کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ میری خوشیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس دنیا سے میں بالکل بے رغبت ہوں، میں یہ چاہتا ہوں کہ نمازیں کس طرح اول وقت پر ادا کروں، اور اپنے والدین کے ساتھ کس طرح حسن سلوک سے پیش آؤں۔كيا نيك و صالحہ بيوى كو روزے دار اور قيام كرنے والے كا ثواب ثابت ہے ؟
ميں نے ايك بار انٹرنيٹ پر اسلامى مجلس ميں ايك حديث پڑھى جس كا حوالہ تو نہيں ديا گيا ليكن محسوس ہوتا ہے كہ وہ حديث بہت اچھے معانى ركھتى ہے، ميں كسى دوسرے كو يہ حديث بتانے سے قبل اس كے صحيح ہونے كى تاكيد چاہتى ہوں، حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: " تم عورتوں ميں سے جس كسى نے بھى نيك و صالحہ بيوى بننے كى تھوڑى سى بھى كوشش كى تو اس كا ثواب دن كو روزہ ركھنے اور رات كو قيام كرنے والے كے برابر ہوگا " آپ كے تعاون پر ميں انتہائى مشكور ہوں جزاكم اللہ خيرا كيا يہ حديث صحيح ہے ؟كنوارى لڑكى يا يتيم بچوں كى ماں سے شادى كرنا
ميرى شادى ہونے والى ہے، كنوارى لڑكى سے بھى شادى كرنا ممكن ہے، اور ايك شہيد كى بيوہ جس كے تين يتيم بچے بھى ہيں سے بھى شادى ممكن ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ اگر شہيد كى بيوہ سے شادى كرنے كا اجروثواب اور كوئى فضيلت ہے تو پھر بيوہ سے شادى كروں. اور آيا اس سلسلہ ميں ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى حديث مروى ہے، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں مجھے مشورہ ديں كہ آيا كنوارى لڑكى سے شادى كروں يا شہيد كى بيوہ سے ؟غصہ كى حالت ميں طلاق دينا اور طلاق پر گواہ مقرر كرنا
ميں نے نيا نيا اسلام قبول كيا اور اسى طرح نيا اسلام قبول كرنے والى عورت سے شادى كى ہے، ہمارى شادى كوتين ماہ ہوئے ہيں، اسلام قبول كرنے سے قبل بھى ہم اكٹھے تھے، بعض اوقات ہمارے درميان اختلافات اس قدر ہو جاتے ہيں كہ شدت غضب كى بنا پر ہم ايسے كلمات كہہ جاتے ہيں جن كا ارادہ تك نہيں ہوتا. بعض اوقات شدت غضب ميں اپنى بيوى كو طلاق كے الفاظ بھى كہتا ليكن ميرا ارادہ نہيں ہوتا تھا، بعد ميں مجھے علم ہوا كہ اگر يہ تين بار كہہ ديا جائے تو طلاق ہو جاتى ہے مجھے يہ علم ہے كہ اگر تين بار طلاق كے الفاظ بولے جائيں تو يہ ايك طلاق شمار ہوتى ہے. ليكن لوگ كہتے ہيں كہ ميں اپنى بيوى كو چھوڑ دوں اور وہ كسى اور شخص سے شادى كرے اور وہ شخص اس سے جماع كر كے اسےطلاق دے يا پھر مر جائے تو ہم دوبارہ شادى كر سكتے ہيں، ليكن ہم اسے غير اسلامى فعل سمجھتے ہيں برائے مہربانى آپ اس مسئلہ كى كتاب و سنت كى روشنى ميں وضاحت كريں. ميں نے سورۃ الطلاق ميں پڑھا ہے كہ طلاق ميں دو گواہ ہونے چاہييں اور رجوع ميں بھى، اور ابو داود كى حديث بھى اس كى تائيد كرتى ہے ؟ ميں نے جتنى بار بھى طلاق كے الفاظ كہے ميرى طلاق مراد نہ تھى اور پھر ميں غصہ كى حالت ميں تھا ميں حلال طريقہ سے ايك مسلمان خاندان بنا كر زندگى بسركرنا چاہتا ہوں. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.بيوى كو ويسے ہى ہم بسترى كے حق سے دستبردار ہونے كا كہا ليكن نيت ميں عليحدگى نہ تھى
بيوى كے ہاں ولادت كے بعد كچھ عرصہ سے ميرے اور بيوى كے مابين آئندہ حمل نہ ٹھرنے اور بچے كى پيدائش ميں وقفہ كرنے كے طريقہ كے متعلق كچھ مشكل اور اختلاف سا پيدا ہوا ہے. اسى سلسلہ ميں بيوى مجھے كہنے لگى كہ تم اس كے بدلہ كوئى اور وسيلہ تلاش كر لو، جس سے مجھے بہت غصہ آيا اور ميں نے اسے كہا: ميں اپنے جماع اور ہم بسترى كے حق سے دستبردار ہوتا ہوں، ليكن ميرى نيت ميں اس سے عليحدگى نہ تھى، بلكہ ميں نے يہ شدت غضب سے اسے يہ كہا تھا. اور اب مجھے علم نہيں كہ اس كا حكم كيا ہے، اور نہ ہى اپنى نيت كے متعلق جانتا ہوں كہ اس وقت ميں كس نيت پر تھا، كيونكہ ميں وسوسہ كى بيمارى كا شكار ہوں، جس كا ميں اللہ كے تعاون سے وسوسہ كى طرف التفات نہ كر كے علاج بھى كر رہا ہوں، ليكن اب تك وسوسہ ميں مبتلا ہوں، برائے مہربانى بتائيں كہ ميں نے جو كچھ كہا ہے اس كا حكم كيا ہے اللہ آپ كو بركت سے نوازے ؟بريلوى عورت سے شادى كرنے كا حكم
كسى بريلوى عورت سے شادى كرنے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟آدمى كا اپنى بيٹى كا بوسہ لينا اور اپنے ساتھ لگانا
ميں يہ دريافت كرنا چاہتى ہوں كہ آيا باپ كے ليے اپنى تئيس برس كى بيٹى كو اپنے ساتھ لگانا جائز ہے، ميرى مراد بستر پر اپنے ساتھ لگانا نہيں بلكہ معانقہ كے ليے اپنے ساتھ لگانا ہے. ميں قسم اٹھا كر كہتى ہوں كہ مجھے نہيں ياد كہ ميرے والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ لگايا ہو اور ميرى نفسياتى حالت كو اللہ كے علاوہ اور كوئى جانتا ہو.عورت اپنے متعلق كہے كہ وہ مسلمان نہيں تو كيا اسلام سے خارج ہو جائيگى ؟
كچھ عرصہ قبل ميرے ايك دوست نے ايك لڑكى سے شادى كى جس نے شادى سے كچھ عرصہ قبل ہى اسلام قبول كيا تھا، ليكن اس لڑكى كى عادت ہے كہ وہ عام طور پر كہہ ديتى ہے ميں مسلمان نہيں، ميں عيسائى ہوں، اس نے يہ بات كئى بار كہى ہے. ميرا سوال يہ ہے كہ كيا يہ چيز اسے اسلام سے خارج كر دے گى چاہے اس نے غصہ كى حالت ميں ہى كہا ہو، اور كيا اسے دوبارہ اسلام قبول كرنا ہوگا، اور تجديد نكاح بھى كيا جائيگا يا نہيں ؟مطلقہ عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نكاح كے ليے صاحب فراش شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے
ميں نے ايك عالم دين سے دريافت كيا تو اس نے جواب ديا كہ آپ كى طلاق رجعى نہيں ہے، اور ميں اپنى بيوى كو دوبارہ اپنے پاس واپس لانا چاہتا ہوں، اور ميرى بيوى ايك ايسے شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے ( جو جماع كى استطاعت نہيں ركھتا ) جو صاحب فراش ہے، اور اس كے بارہ ميں ڈاكٹروں كى رائے ہے كہ وہ چند ايام ميں فوت ہو جائيگا يہ سب كچھ اس ليے ہے تا كہ ميں اس سے دوبارہ شادى كر سكوں. اس كے ليے ممكن ہے كہ وہ صاحب فراش شخص جو موت و حيات كى كشمكش ميں ہے كو شادى كرنے كے ليے كچھ رقم بھى ادا كرے، تو كيا ميرے ليے اس كى وفات كے بعد اس عورت سے شادى كرنا حلال ہوگا ؟ ميں آپ كے جواب كا منتظر ہوں، برائے مہربانى ميرا تعاون فرمائيں.كئى برس تك اپنے والد كے پاس قليل سى تنخواہ پر كام كيا اور اب عليحدہ ہو كر اپنا كام كرنا والد سے قطع رحمى تو نہيں كہلائيگى
ميرى مشكل يہ ہے كہ ميں بچپن سے ہى والد صاحب پر اعتماد كرتا رہا، ميرا سارا خرچ والد صاحب ہى برداشت كرتے رہے، اور ہر چيز لا كر دى ـ ميں اپنى تعليم اس ليے مكمل نہ كر سكا كہ والد صاحب كا اصرار تھا كہ ميں ان كے ساتھ تجارتى معاملات ميں ہاتھ بٹاؤں، اس ليے ميں نے مڈل تك ہى تعليم حاصلى كى، حالانكہ ميں ان كے ساتھ كام نہيں كرنا چاہتا تھا اس كے باوجود والد صاحب كے اصرار پر ميں نے ان كے ساتھ دينا شروع كر ديا. اور وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ ميں كام كرنے كا عادى بھى ہو گيا، اور تقريبا ساٹھ فيصد كام كو پسند كرنا شروع كر ديا، ميں نے والد صاحب كے ساتھ مسلسل سولہ برس تك كام كيا ہے، جس ميں كوئى واضح ترقى نہ ہوئى، يا پھر ميں محسوس كرتا ہوں كہ ميرى ايك اچھى آزمائش تھى. اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے ميرے سارے اخراجات وہى كرتے رہے، ابتدائى برسوں ميں تو ميں بغير تنخواہ كے كام كرتا رہا، والد صاحب مجھے ايك ہفتہ كا خرچ دے ديتے، يا پھر ميں انصاف كى اور سچى بات كروں تو مجھے اتنا خرچ دے ديتے جو ايك ماہ كے ليے كافى ہوتا. ليكن يہ خرچ اتنا نہيں تھا كہ ميں اس سے كچھ بچا سكوں، اسى طرح دن گزرتے رہے، اور ميں نے شادى كرنے كا فيصلہ كيا، اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے انہوں نے شادى كے اخراجات كيے، اور مجھے اپنے گھر ميں ہى ايك فليٹ رہائش كے ليے دے ديا، ميں اس نيكى كا كبھى انكار نہيں كرونگا. اس كے بعد والد صاحب نے دو ہزار ريال ميرى تنخواہ مقرر كر دى، اور كچھ سال كے بعد بڑھا كر تين ہزار كر دى، ليكن ميں محسوس كرتا تھا كہ ميں اپنے اس كام پر راضى نہيں ہوں، كيونكہ يہ تنخواہ ميرى ذاتى اور گھريلو ضروريات كے ليے كافى نہ تھى. تين برس گزرنے كے بعد ميں نے اپنے والد صاحب كى جانب سے برا سلوك ديكھنا شروع كرديا جو بعض اوقات تو گاليوں تك پہنچ جاتى اور دوسروں كو مجھ پر فضيلت ديتے كہ تم سے تو فلاں شخص ہى اچھا ہے، اور فلاں شخص ديكھو وہ تم سے بہتر ہے... ميں محسوس كرنے لگا كہ والد صاحب دوسروں كو اچھا سمجھتے ہيں، اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرتے ہيں، ليكن ميرے بارہ ميں ان كا رويہ اچھا نہيں ميرے ساتھ معاملات اچھے نہيں كر رہے، مجھے والد صاحب كوئى كام كرنے كا كہتے اور مجھے اس كا صلہ دينے كا بھى وعدہ كرتے ليكن بعد ميں فيصلہ تبديل كرتے ہوئے اپنا وعدہ پورا نہ كرتے اور كہتے كہ مجھے تو كوئى وعدہ ياد نہيں ہے، يا پھر كہتے كہ تم نے كام ميں كوتاہى كى ہے، اس كے علاوہ كئى طرح كے بہانے بنا كر انكار كر ديتے. اس سب كچھ كے بعد انہوں نے ميرى تنخواہ بھى كم كر كے دو ہزار ريال كردى حالانكہ ميرى عمر اب سينتيس برس ہو چكى ہے، اور ميں شادى شدہ ہوں اور ميرى اولاد بھى ہے، اور ميرے ذمہ كئى قسم كى ذمہ دارياں ہيں، بلاشك آپ كو علم ہے كہ اس وقت مہنگائى كتنى ہو چكى ہے، دو ہزار ريال كس طرح ايك ماہ كے اخراجات پورے كر سكتے ہيں، اور آئندہ مستقبل كى كيا ضمانت ہو سكتى ہے ؟ اور مستقبل ميں بچوں كے ليے كيا بنايا جا سكتا ہے، مجھے كئى قسم كے افكار اور سوچيں گھيرے ركھتى ہيں كہ ميں كوئى اور كام كر لوں، ليكن جب بھى ميں والد صاحب كا سوچتا ہوں تو مجھے پريشانى لاحق ہو جاتى ہے، اور ميں خوف محسوس كرتا ہوں كہ والد صاحب اكيلے رہ جائيں گے اور وہ اس كا اثر بھى ليں گے. اور اسى طرح ميں ان كى ناراضگى كا خدشہ بھى محسوس كرتا ہوں، جب انہيں علم ہوگا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كر رہا ہوں تو وہ ناراض ہونگے، كيونكہ وہ ہر مسئلہ ميں مجھ پر اعتماد كرتے ہيں، چاہے تجارت ہو يا گھر كا كام، يا خاندان كا كوئى معاملہ ہو، ہر كوئى يہى كہتا ہے كہ ميں ہى اس خاندان كا سب كچھ اور محور ہوں. وہ يہ سمجھتے ہيں كہ اس كام كے پيچھے مجھے بہت كچھ ملتا ہے، حالانكہ فى الواقع ايسا نہيں ہے، بلكہ ميں تو يہ سمجھتا ہوں كہ اس ميں جو خير پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اللہ كے حكم سے ميں حسب استطاعت اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك كر رہا ہوں، حالانكہ مجھے وہ كچھ حاصل نہيں ہوتا جو ميرے باقى بھائي حاصل كرتے ہيں. ميرے سارے بھائى مجھ سے چھوٹے ہيں، اور ميں ہى سب سے بڑا ہوں، وہ سب اچھى ملازمت كر رہے ہيں اور ان ميں سے سب كى كم از كم تنخواہ پانچ ہزار ريال ماہانہ ہے، اور پھر وہ غير شادى شدہ ہيں، ليكن ميرى تنخواہ صرف دو ہزار ريال ہے، مجھے علم ہے كہ ميرے مقدر ميں يہى ہے، اور روزى كى تقسيم تو اللہ سبحانہ و تعالى ہى كرتا ہے اس نے ہر انسان كا رزق اور اسكى زندگى اور تقدير لكھ ركھى ہے... اللہ گواہ ہے ميرا اس پر ايمان ہے كہ يہ اللہ كى جانب سے ہے، اللہ نے ميرے ليے جو لكھ ركھا ہے ميں اس پر راضى ہوں، اللہ سبحانہ و تعالى نے انسان كے ليے بہتر ہى لكھا ہے، ہر حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ہے. ليكن انسان طبعى طور پر كمزور واقع ہوا ہے، اور وہ بعض اوقات دنياوى امور كى طرف مائل ہو كر اس كى جانب جھك جاتا ہے، كہ وہ اپنے كسى دوست يا كسى رشتہ دار يا پھر اپنے ارد گرد رہنے والوں كو ديكھتا اور كہتا ہے كہ: ميں بھى ان جيسى صفات كا مالك كيوں نہيں، وہ اچھا لباس زيب تن كرتے ہيں، اور بہترين گاڑيوں پر سفر كرتے ہيں اور اپنى اولاد كے ليے جو چاہيں لا كر ديتے ہيں ..... ليكن ميں ايسا نہيں ؟ بعض اوقات ميں بھى محسوس كرتا ہوں كہ ميں بھى اس امر واقع كے سامنے سرتسليم خم كر چكا ہوں، ميرے پاس كوئى اچھى ملازمت نہيں ہے، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى ايسى تعليمى ڈگرى ہے جو مجھے كوئى اچھى ملازمت دلا دے جس كے ذريعہ ميں اپنے بيوى بچوں كے صحيح طرح اخراجات پورے كر سكوں، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى جمع پونجى ہے جس كے ذريعہ كوئى كاروبار شروع كروں. خلاصہ يہ ہے كہ: اس وقت تو ميرى حالت اور بھى زيادہ خراب ہو چكى ہے كيونكہ گھريلو اخراجات بڑھ چكے ہيں اور ميں محسوس كرتا ہوں كہ دنيا ميرے سر پر سوار ہے ميں اس كا وزن برداشت نہيں كر سكتا، ہر وقت پريشان اور غم كا شكار رہتا ہوں، اور دن بدن نيچے كى طرف ہى جا رہا ہوں، اور پريشانى بھى بڑھ رہى ہے. اس ليے ميں نے يہ فيصلہ كيا كہ مجھے كوئى اور كام كرنا چاہيے، اور اس كوئى ايسا كام تلاش كروں جو ميرے حالات بدل دے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ كسى بھى وقت اپنى بيوى كھو سكتا ہوں، كيونكہ وہ مجھے ہر وقت كوئى اور كام تلاش كرنے پر ابھارتى رہتى ہے، كيونكہ وہ خود بھى ملازمت كرتى ہے اور ميرى تنخواہ سے تين گناہ زيادہ تنخواہ ليتى ہے، اور گھريلو اخراجات ميں ميرى مدد كرتى، بلكہ مجھ سے بھى زيادہ اخراجات برداشت كرتى ہے. ليكن مرد كى بھى كوئى عزت ہونى چاہيے، اور اس كے نفس كى عزت ہو، ميں جانتا ہوں كہ ان دنياوى امور ميں بيوى اپنے خاوند كى معاونت كر سكتى ہے اس ميں كوئى حرج نہيں ليكن معاملہ مختلف ہے كيونكہ وہ ميرى عيالدارى ميں ہے اس كے اخراجات ميرے ذمہ ہيں، بلكہ ايك دفعہ تو ايسا بھى ہوا كہ ميرى بيوى ميرے فقر كى بنا پر اپنے ميكے بھى چلى گئى اور وہ اس صورت حال سے خوش نہيں ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ وہ حق پر ہے. وہ ايسا كرے بھى كيوں نہ، اور كيسے اپنے ميكے جا كر نہ بيٹھے، كيونكہ وہ ديكھتى ہے كہ اس كى سارى سہيلياں اور سارى بہنيں شادى شدہ ہيں اور وہ اپنے ملكيتى گھروں ميں رہتى ہيں، اور اچھى سے اچھى گاڑى ركھى ہوئى ہے، اور بہتر سے بہتر وسائل راحت اختيار كيے ہوئے ہيں، ليكن اسے ان اشياء ميں سے كچھ بھى حاصل نہيں ہے. اہم يہ ہے كہ ميں نے جب بھى عزم كيا يا ارادہ كيا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كروں تو مجھے خوف اور ڈر سا لگا رہتا ہے كہ كہيں مستقبل ميں ناكام نہ ہو جاؤں، جيسا كہ ميں اوپر كى سطور ميں بيان كر چكا ہوں كہ ميں اپنے والد صاحب پر ہى اعتماد كرتا رہا ہوں، اور ميں نے كبھى بھى عليحدہ اكيلے كام نہيں كيا، ميرے والد صاحب نے مجھے عادى بنا ديا ہے كہ ميں ہر چيز ميں ان ميں پر اعتماد كرنے لگا ہوں، اور ميں يہ نقطہ ان كى مصلحت كے ليے ہى استعمال كرتا ہوں. ليكن اب مجھے ايك ايسا كام ملا ہے جس كے بارہ ميں معلومات اكٹھى كرنے اور الحمد للہ استخارہ كرنے كے بعد مجھے علم ہوا ہے كہ اس ميں ان شاء اللہ خير پائى جاتى ہے، ليكن اندر سے مجھے بہت زيادہ ڈر بھى محسوس ہو رہا ہے استخارہ كے بعد مجھے پچاس فيصد سكون حاصل ہوا ہے، ليكن باقى خوف اور حيرانى پائى جاتى ہے كہ كہيں ناكام نہ ہو جاؤں، ميں وضاحت كے ساتھ بتانا چاہتا ہوں كہ وہ كام درج ذيل ہے: سامان كى نقل و حمل كے ليے گاڑى چلانا، كہ ہر چيز ايك علاقے سے دوسرے علاقے ميں نقل كى جائے كچھ لوگ حتى كہ ميرے بھائى بھى مجھے يہ كام كرنے پر طعنے ديتے اور عار دلاتے ہيں، حتى كہ ابتدا ميں تو ميرے والد صاحب بھى ميرے ساتھ مذاق كرنے والوں ميں شامل تھے. ان كا كہنا تھا كہ ميں نے وہ كام شروع كيا ہے جو دوسرے ملكوں سے يہاں كر دوسرے ملازمين كرتے ہيں، ليكن مجھے تو يہ كام اچھا لگا ہے، ميں اس سے اپنى روزى كماتا اور اپنے بيوى بچوں كے اخراجات پورے كرتا ہوں، اللہ سے توفيق كى دعا ہے. برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كام كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟ اور ميرى حالت كے بارہ ميں آپ كى رائے ميں كيا حل ہے اور مجھے كيا كرنا چاہيے، اور كيا اگر ميں اپنے والد سے عليحدہ اور دور رہ كر كوئى كام كرتا ہوں تو كيا ميں نافرمان كہلاؤنگا، كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں ميں والد صاحب كا نافرمان نہ بن جاؤں، اللہ سے ميرى دعا ہے كہ ميں اپنے والدين سے حسن سلوك كرنے والا بنوں ؟لنگڑا پن اور وسوسے ميں مبتلا شخص سے شادى كرنا
ميرى عمر پچيس برس ہے اور ايك برس سے ميرى منگنى ہو چكى ہے وہ لڑكا مجھ سے ايك برس بڑا ہے، اور پرومگرمنگ انجينئر ہے، ميرى مشكل كے دو حصے ہيں: پہلا حصہ: اس نوجوان ميں پيدائشى اور وراثى نقص پايا جاتا ہے كہ ايك پاؤں سے لنگڑا ہے اور شديد لنگڑا پن ہے، ابتدا ميں تو ميں نے اس عيب كى كوئى پرواہ نہ كى، ليكن اب محسوس كرنے لگى ہوں كہ يہ عيب ميرا اس كے ساتھ تعلقات پر اثرانداز ہوگا، ليكن اس كى جانب سے مجھ ميں ہر روز دلچسپى بڑھ رہى ہے اور تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہيں. وہ ايك ديندار نوجوان ہے، اور اپنے كام ميں اللہ سے ڈر اور تقوى اختيار كرتا ہے، اور بہت سارے امور ميں عدل كرنے كى كوشش كرتا ہے، اور كسى پر ظلم نہيں كرتا، ليكن اسے زندگى كا بہت كم تجربہ ہے، اس ليے كہ اپاہچ ہونے كى بنا پر اس كے والدين نے اسے گھير ركھا ہے. ليكن وہ خود اپنے آپ كو تبديل كرنے كى كوشش كر رہا ہے اور مستقل طور پر اپنے معاملات كو ديكھتا ہے، حتى كہ بعض اوقات تو مجھ سے دريافت كرتا ہے كہ " كيا اس نے صحيح جواب ديا، اور كيا اس طرح صحيح تھا ؟ دوسرا حصہ: ميرے قصے كا دوسرا حصہ يہ ہے كہ اس نے نوجوان نے منگنى كے بعد مجھے بتايا كہ وہ پريشانى اور وسوسے كا شكار رہتا ہے، خاص كر وضوء اور طہارت ميں، حتى كہ بيس منٹ تك وضوء ہى كرتا رہتا ہے، اور پريشانى اتنى ہوتى ہے كہ بعض اوقات تو اسے اپنى زندگى بھى اچھى نہيں لگتى، اور سمجھتا ہے كہ زندگى كا كوئى فائدہ نہيں، اور جب يہ پريشانى ختم ہو جاتى ہے تو وہ پھر اپنى حالت ميں واپس آ جاتا ہے. اور بعض اوقات اسے دوائى كھانى پڑتى ہے، ليكن اب ايك برس سے وہ دوائى نہيں كھا رہا، ليكن اس ميں كچھ ايجابى اشياء بھى پائى جاتى ہيں: وہ بہت اچھا اور كريم ہے، عدل كرنے والا ہے ظلم پسند نہيں كرتا، اور ديندار ہے، ميرے خيال ميں وہ ميرے متعلق اللہ كا تقوى اختيار كريگا، اور اس دوسروں كى رائے سننے پر بہت قدرت حاصل ہے، اور ممكن ہے كہ دلائل ہوں تو وہ مطمئن بھى ہو جائے. ليكن وہ شخصيت كے اعتبار سے كمزور اور ضعيف ہے اور بہت صراحت كرنے والا ہے، اور قابل احترام خاندان سے تعلق ركھتا ہے، ليكن وہ يہ چاہتا ہے كہ شادى ميں والد صاحب اسے جو مال ديں وہ شادى كے بعد سارا واپس كريگا، كيونكہ اسے اس مال ميں شك ہے، كيونكہ وہ رقم بنك ميں ركھى گئى ہے، اب ہم شادى كى تيارى كر رہے ہيں، مجھے يہ معلوم نہيں ہو رہا كہ آيا ميرا يہ اختيار صحيح ہے يا نہيں ؟ اور كيا ميں اس كے ساتھ زندگى بسر كر سكوں گى، اور اس كے اثرانداز ہوئے بغير اپنے ملنے والوں سے تعلقات ركھ سكوں گى يا نہيں ؟ ميں اس موضوع كو دو طرح سے ديكھ رہى ہوں: ايك تو دينى اعتبار سے اور دوسرا دنياوى اعتبار سے. دينى اعتبار سے اس طرح كہ: ميں كيسى ايسے شخص كو چاہتى ہو جو ميرے متعلق اللہ سے ڈرے اور تقوى اختيار كرے اور ميں اس كى زندگى ميں اس كى ممد و معاون بنوں، خاص كر جب مجھے وہ يہ كہہ رہا ہے كہ جب سے ميرى اس كے ساتھ پہچان ہوئى ہے اس وقت سے اس ميں بہت تبديلى پيدا ہوئى ہے. اور دنياوى اعتبار سے يہ كہ: ميں كسى ايسے شخص كے ساتھ زندگى بسر كرنا چاہتى ہوں جس كے ساتھ رہتے ہوئے مجھے شرم محسوس نہ ہو، يہ علم ميں رہے كہ وہ مجھے بہت زيادہ چاہتا ہے، اس كى زندگى ميں آنے ولى پہلى لڑكى ميں ہى ہوں، وہ ہميشہ مجھے يہى كہتا ہے كہ: وہ بہت سارے نفسياتى مراحل سے گزرا ہے، چاہے كلاس ميں دوسرے لڑكے ہوں ـ وہ لڑكے اس كے ساتھ كھيلنے كے ليے تيار نہيں ہوتے تھے ـ يا پھر دوسرے لوگ. اس كے نتيجہ ميں اس كا كوئى دوست نہيں، اب تك سوائے ايك كے كوئى اور دوست نہيں ہے، وہ بھى ا سكا چچا زاد بھائى ہے، وہ اس پر تيار ہے كہ ميرى سہيليوں كے خاوندوں كے ساتھ دوستى لگائے، اور اپنے ساتھ كام كرنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرے. اب تو وہ نظم و ضبط اختيار كرنے لگا ہے، اور اس كى زندگى قابل اعتماد بن رہى ہے، ميرے ساتھ اس كا تعلق گہرا ہو چكا ہے، اور اس سوچ پر كہ ميرى زندگى ميں آنے والا يہ پہلا نوجوان ہے، اس سے قبل ميں نے كسى لڑكے سے بات چيت نہيں كى، اور نہ ہى كسى سے تعلق قائم كيا ہے، برائے مہربانى آپ مجھے معلومات فراہم كريں.میاں بیوی کے درمیان گھر کے اخراجات پر تنازعہ سے متعلق نصیحت
ایک سائلہ کہتی ہے کہ وہ سعودی عرب میں کئی سال سے بطور استانی کام کر رہی ہے، تو اس کی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد اس کا خاوند ساتھ آیا پہلے اس کا بھائی ساتھ ہوتا تھا، الحمد للہ ، اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹا بھی دیا، میرا خاوند اپنی تعلیمی اہلیت کے مطابق کام کی تلاش میں رہا لیکن اسے کامیابی نہ ملی، آخر کار وہ مشرقی ریجن میں جہاں ہماری رہائش ہے کسی دکان پر کام کرنے لگا ، اور گھر کے اخراجات پر اختلافات شروع ہو گئے، تو کیا مجھ پر لازم ہے کہ میں گھر کے اخراجات برداشت کروں؟؛ کیونکہ میرا خاوند مجھے کہتا ہے کہ اگر میں گھر کے اخراجات نہ اٹھاؤں تو مجھے کام کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے؟ اور کیا میرے خاوند کا میری تنخواہ میں کوئی حق ہے؟ جو کہ میں اپنی محنت کے عوض حاصل کرتی ہوں؟ اور اگر میں اپنے گھر کے اخراجات برداشت کروں تو اس میں میرے ذمہ کتنا حصہ آتا ہے اور میرے خاوند کے ذمے کتنا آتا ہے؟پھوپھى كے بيٹے سے شادى كرنے كى وصيت پورى كرنا
ميرے والد رحمہ اللہ نے وصيت ميں لكھا ہے كہ ميرا نكاح پھوپھى كے بيٹے سے كيا جائے ليكن انہوں نے وصيت لكھنے سے قبل اس شخص كے متعلق ميرى رائے دريافت نہيں كي تھى؛ والد صاحب ميرى رائے معلوم كرنے سے قبل ہى بيمار رہ كر فوت ہو گئے. اور اس شخص نے جب ميرے ساتھ اس موضوع پر بات كى تو ميں نے اسے صراحت سے كہا كہ ميرے اور تيرے درميان صرف اخوت و رشتہ دارى كے علاوہ كوئى اور احساس نہيں، تو كيا ميں شرعيت كى مخالف ہوں، يا پھر اگر ميں اس شخص سے شادى نہيں كرتى تو كيا يہ والد كى نافرمانى ہو گى ؟ يہ علم ميں رہے كہ ميرا دل كسى اور رشتہ دار كى طرف مائل ہے جو ميرا احترام بھى كرتا ہے اور ميرى قدر كرتا اور محبت كا دعوى دار ہے ؟مانع حمل گولیاں کھانے کی وجہ سے ماہواری غیر منظم ہو گئی ہے۔
میں کچھ طبی وجوہات کی بنا پر خاندانی منصوبہ بندی کیلیے گولیاں استعمال کرتی ہوں، میں کچھ دن یہ گولیاں لینا بھول گئی اور اب مجھے خون کے جاری ہونے کی شکایت ہے۔ جن دنوں میں مجھے خون جاری ہونے کی شکایت ہوتی ہے میں ان میں سے دو دن نماز بھی ادا کرتی ہوں لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں گناہ کا کام کر رہی ہوں۔ اس بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟ میں امید کرتی ہوں کہ اس بات کو اچھی طرح مد نظر رکھیں گے کہ یہ گولیاں میں طبی مسائل کی وجہ سے استعمال کر رہی ہوں، اور میرے خاوند کو بھی ان گولیوں کے استعمال کا علم ہے۔ طبی مسائل کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر میں یہ گولیاں استعمال نہ کروں تو مجھے طبی پیچیدگیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔حسن صورت اور حسن سيرت خاوند اختيار كرنا مستحب ہے
ميں نے ايك حديث پڑھى ہے ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں، اور اس ميں بيان كردہ احكام كونسے ہيں، اور برے منظر كا معنى كيا ہے. قرطبى رحمہ اللہ نے ايك حديث روايت كيا جس كا معنى يہ ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اولياء اور ذمہ داران كو حكم ديا ہے كہ وہ قبيح اور بدصورت اور بد اخلاق شخص سے اپنى بيٹيوں كى شادى مت كريں. اور قرطبى نے يہ بھى ذكر كيا ہے كہ ثابت بن قيس كى بيوى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيان كيا كہ ان كا خاوند قبيح ہے اور وہ اس كا چہرہ ديكھنے كى سكت نہيں ركھتى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كہا: كيا تم اس كا مہر واپس كرتى ہو؟ تو اس نے جواب ديا اگر وہ چاہے تو ميں مہر سے زيادہ بھى ديتى ہوں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جو تم نے اسے ديا ہے وہ بيوى سے واپس لے لو اور اسے چھوڑ دو، تو انہوں نے اسے طلاق دے دى " او كما قال رسول اللہ عليہ وسلم.غير قانونى نكاح كر كے خاوند كى دوسرى بيويوں كو شادى كا بتا ديا تو خاوند نے طلاق دے دى اور اب وہ حمل گرانے كا مطالبہ كرتا ہے!
ميں ايك نيك و صالح اور دين كا التزام كرنے والے شخص سے شادى شدہ ہوں، اس نے اپنے خاندان والوں سے خفيہ طور پر ميرے ساتھ شادى كى كيونكہ وہ پہلے بھى شادى شدہ تھا، اس كى رغبت كا احترام كرتے ہوئے ميں نے بہت سارے حقوق ختم كر ديے تا كہ يہ راز قائم رہے، اس طرح ميں اس سے رابطہ كرنے ميں مشكل سے دوچار رہنے لگى، ميرى شادى كو ايك برس ہو چكا ہے ليكن اس عرصے ميں اسے ميں نے صرف چوبيس دن ديكھا ہے. اور بالآخر ميں نے فيصلہ كيا كہ ميں اس كى بيويوں اور خاندان والوں كو بتا دوں ہو سكتا ہے وہ ميرے ساتھ نرمى و رحمدلى كا سلوك كرتے ہوئے ميرا تعاون كريں، ليكن اچانك مشكل اور بڑھ گئى كيونكہ ميں چھ ماہ كى حاملہ ہوں اس حالت ميں خاوند نے مجھے موبائل ميسج كر كے طلاق دے دى. مجھے حق سننے والا كوئى نہيں ملا ليكن اس سے بھى بڑھ كر ظلم يہ كہ ميرا خاوند حمل گرانے كا مطالبہ كر رہا ہے! اس سلسلہ ميں شريعت كيا كہتى ہے ؟ ميں تو ضائع اور تباہ ہو گئى ہوں كيونكہ ميرا نكاح سركارى طور پر رجسٹر نہيں ہوا، بلكہ صرف شرعى طور پر والد صاحب اور دو گواہوں كى موجودگى ميں نكاح ہوا تھا، اب ميں تو يہى كہتى ہوں كہ مجھے اللہ ہى كافى ہے، ميں نے اس كے خاندان والوں كو بتا كر كوئى برائى نہيں كى، كيونكہ ميرا خيال تھا كہ وہ سمجھتے ہيں، ليكن معاملہ اس كے برعكس اور الٹ ہو كيا، اب مجھے كيا كرنا چاہيے ؟رخصتى كى تقريب ميں برائى كا ارتكاب
ميں تئيس برس كى لڑكى ہوں ميرے آفس كے ايك دوست نے فرورى ميں ميرے ساتھ شادى كا پيغام بھيجا ہے، ليكن ميرے والدين كا اصرار كيا كہ منگنى كى تقريب كو اپريل تك مؤخر كريں تا كہ وہ تيارى كر سكيں، يہ علم ميں رہے كہ منگنى كى تقريب ہمارے گھر ميں تھى نہ كہ ميرج ہال يا كسى اور جگہ بہرحال ہم نے صبر كيا اور الحمد للہ منگنى ہو گئى. اور اس كے كچھ ہى عرصہ بعد فليٹ كے متعلق مشكلات شروع ہو گئيں، ميرا منگيتر بھى ابتدائى زندگى ميں باقى دوسرے نوجوانوں كى طرح ہى ہے، ليكن ميرے والد صاحب كا اصرار ہے كہ وہ اپنا فليٹ خريدے، حالانكہ ميرے منگيتر كے ساتھ اتفاق يہ ہوا تھا كہ اگر فليٹ نہ خريد سكا تو شادى كرنے كے ليے كرايہ پر فليٹ حاصل كريگا. پھر ہم نے فليٹ تلاش كرنا شروع كيا تو جہاں ہم فليٹ ديكھتے وہاں والدين كو پسند نہ آتا، حالانكہ انہوں نے بغير كسى دليل اور مناقشہ كے ہم پر معين مقامات پر فليٹ كرايہ پر لينا لازم كيا تھا، وہ كہتے ہيں كہ فليٹ ہمارے قريب ہونا چاہيے، اور جب ہم بات كرنے كى كوشش كرتے ہيں تو والد صاحب مانتے نہيں اور منگنى توڑنے كى دھمكى ديتے ہيں، پھر ہم نے دوبارہ نئے سرے سے فليٹ كرايہ پر تلاش كرنا شروع كيا ليكن ہم چھوٹا فليٹ كرايہ پر لينا چاہتے ہيں، اور اچانك ميرے والد صاحب نے مجھے كہا كہ مجھے اس كى سوچ اور فكر اچھى نہيں لگى، اور دو برس كے ليے فليٹ كرايہ پر لينے ميں اس كى ضمانت نہيں ہے اور مجھے تيرے متعلق خطرہ ہے، اور مجھے زندگى ميں كوئى تجربہ حاصل نہيں ہے، اور ميں اپنے شعور اور احساس كے پيچھے بھاگ رہى ہوں، والد صاحب يہ منگنى توڑنا چاہتے ہيں، ميں مان گئى، ليكن ميرے منگيتر نے دوبارہ كوشش كى اور الحمد للہ ايك بار پھر يہ منگنى بحال ہو گئى. ہميں ايك نيا فليٹ مل گيا اور ہم نے يہ پانچ برس كے ليے كرايہ پر لے ليا، اور والد صاحب بھى مان گئے، اور وہ مجھے كہتے ہيں كہ يہ مضمون نہيں، يہ رمضان سے دو ہفتے قبل كى بات ہے، ہم نے والدہ كو تيارى كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كى تا كہ وقت ضائع نہ ہو اور بغير استعمال كيے فليٹ كا كرايہ بھى ويسے ہى ادا نہ كرنا پڑے، ليكن والدہ نے انكار كر ليا اور كہنے لگى رمضان كے بعد ديكھيں گے. ميرا منگيتر اس فليٹ كا كرايہ ادا كر رہا جسے حاصل كرنے پر ہميں مجبور كيا گيا ہے اور جگہ بھى والدين كى مرضى كے مطابق ہے تا كہ ميرے والدين كو پسند آ جائے، رمضان المبارك كے بعد ہم تيارى ہونے لگى اور منگيتر نے فليٹ كو رنگ كرانا اور گھريلو سامان خريدنا شروع كر ديا، اور گھريلو سامان كى خريدارى ميں ايك بار پھر مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اور والدين كہنے لگے كہ انہيں ہم سے زيادہ علم ہے اور وہ زيادہ ذوق ركھتے ہيں، اور جو چيز انہيں پسند ہو گى وہى خريدى جائيگى چاہے وہ جتنى بھى مہنگى اور قيمتى ہو وگرنہ يہ منگنى توڑ دى جائيگى، مجبورا ہم نے ان كى مرضى كے مطابق گھريلو اشياء خريدى جن كى قيمت چواليس ہزار تھى، منگيتر نے اس پر موافقت كى تا كہ يہ منگنى ختم نہ ہو، اور ہم منگنى كى مدت كو كم كرنے كى كوشش كر رہے ہيں تا كہ اللہ ہمارى حفاظت فرمائے كيونكہ ہمارے درميان محبت ہے. اور اس ميں اضافہ ہو رہا ہے، ہم اپنى شادى ميں اللہ كى اطاعت چاہتے ہيں اور ميرا منگيتر اخلاق والا اور اپنے ارد گرد ہر شخص كو پسند كرنے والا ہے، ليكن افسوس ہے كہ ميرے والدين كو پسند نہيں كرتا. اس نے گانے نہ سننے اور پينٹ شرٹ كو ترك كرنے ميں ميرى مدد كى ہے، اور ہر وقت مجھے اللہ كى نافرمانى سے دور رہنے كى ترغيب دلاتا رہتا ہے، ليكن افسوس والد صاحب اس كو تشدد محسوس كرتے ہيں، اور كہتے ہيں انہوں نے ميرى تربيت دين پر كى ہے وہ كافر تو نہيں اور نہ فاسق ہيں كہ اسے اس كا منگيتر جو كہتا ہے وہى كروں. اب ہميں اور ايك اور بڑى مشكل يہ دركار ہے وہ رخصتى كے موقع كى تقريب ہے ہمارى خواب تھى كہ ہم ايك نيا كام سرانجام دينگے ميں كھلا اور واسع لباس پہنوں گى اور ميك اپ نہيں كرونگى اور نہ ہى سٹيج پر بيٹھوں گى جس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو. ليكن يہ سارے خواب اس وقت چكنا چور ہو گئے جب ہم نے والد صاحب كو اس پر منانے كى كوشش كى اور اس كا سبب رخصتى كى تقريب كا خرچ زيادہ ہونا بتايا تو ميرے والد صاحب كہنے لگے ہم اس رخصتى كو ايك يا دو برس ليٹ كر ليتے ہيں تا كہ اس تقريب كے ليے رقم اكٹھى ہو جائے، اور ہم اس پر موافق ہو گئے، ليكن وہاں نہ تو رقص ہو اور نہ ہى ناچ گانا تو انہوں نے اس پر بھى بہت زيادہ اعتراض كيا، اور اب ميں يہ سوچ رہى ہوں كہ ہم ان كى بات مان ليتے ہيں ليكن رخصتى كى تقريب سے ايك روز قبل جب عقد نكاح لكھا جائے تو ہم ميرج ہال نہيں جائينگے بلكہ ہم سيدھے اپنے فليٹ ميں جائيں تا كہ ہم اپنى زندگى كى ابتدا اللہ كى نافرمانى و معصيت سے شروع نہ كريں، ليكن مجھے خدشہ ہے كہ اس ميں انہيں بہت زيادہ تكليف اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑيگا، اور اس ميں ان كى ذلت و رسوائى ہو گى. مجھے اس ميں كيا كرنا چاہيے كيا وہ مال جو اس تقريب ميں خرچ ہو گا وہ حرام ہے، يا ہميں ان كى موافقت كرتے ہوئے ميرج ہال جانا چاہيے، يا ہم انہيں چھوڑ ديں، ميں اپنے رب كى اطاعت كرنا چاہتى ہوں اگرچہ ميرے گھر والے اسے تشدد ہى سمجھتے ہوں. ليكن يہ اس وقت ہى پورى ہو گا جب ميرى شادى ہو گى اور ميں اس گھر كو ترك كرونگى، ميں اپنے گھر والوں كا مقابلہ نہيں كر سكتى، حالانكہ مجھے علم ہے كہ وہ جو كچھ كہہ رہے ہيں وہ صحيح نہيں ليكن ميں ان كا مقابلہ نہيں كر سكتى. ميرا منگيتر كہتا ہے كہ يہ اللہ كى طرف سے آزمائش ہے اس ميں ثابت قدمى كى ضرورت ہے، كيونكہ اگر ہم ان كى موافقت كرتے ہوئے تقريب ميں حاضر ہوتے ہيں تو ہم اللہ كے نافرمان ٹھرينگے، اور اگر نہ جائيں اور انہيں چھوڑ ديں تو يہ ميرے خاندان والوں كے ليے رسوائى اور ذلت كا باعث ہے، يہ علم ميں رہے كہ نكاح ہو جانے كے بعد ميں اپنے خاوند كى اطاعت ميں ہوں ليكن ميں اپنے گھر والوں كے ليے بھى حرج اور مشكل پيدا نہيں كرنا چاہتى.والد كے فوت ہونے كے بعد بڑے بھائى كى چھوٹے بہن بھائيوں پر مالى اور شادى كے متعلق ذمہ دارى
ميرے كچھ اہم سوالات ہيں برائے مہربانى اس كا علمى جواب ديں جس ميں اہل علم كے اقوال اور علمى مصادر واضح طور پر بيان ہوں، كيونكہ ميں نے يہ جواب ايك شيعہ شخص كو دينا ہے، مجھے علم ہے كہ ميں اپنے بعض سوالات كے جوابات آپ كى اس ويب سائٹ سے حاصل كر سكتا ہوں، ليكن ميں نے عمدا ايسا كيا ہے تا كہ مجھے سارے جوابات ايك ہى صفحہ پر اور اكٹھے مل جائيں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے: سوال نمبر 1 ـ اگر ميرے والد اور داد فوت ہو جائيں اور ميرى دس برس كى بہن ہو جو بالغ ہو چكى ہو اور وہ كنوارى اور عاقل ہو تو كيا بھائى ہونے كے ناطے ميں اس كا ولى بن سكتا ہوں اور اس كى شادى پر ميں اس كا نگران رہوں گا ؟ سوال نمبر 2 ـ كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا صحابہ كرام كے دور ميں ايسا كوئى واقعہ ہوا ہے كہ كسى بھائى نے اپنى بہن كى شادى كى ہو اور اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا ہو، تا كہ ميرے سوال كا مضمون نص كے موافق ہو جائے ؟ تيسرا سوال 3 ـ اور چھوٹى بچى كى ولايت كے ليے جو عاقل و بالغ اور كنوارى اور مكلف ہو اور جس كى شادى پہلے ہو چكى ہو كى ولايت كى ترتيب كيا ہے ؟ چوتھا سوال 4 ـ اور كيا جس لڑكى كى پہلے شادى ہو چكى ہو چاہے وہ طلاق يافتہ ہو يا بيوہ تو كيا وہ ولى كى موافقت كے بغير خود اپنا نكاح كر سكتى ہے ؟