ديكھنے اور بطور مطالعہ كے غار حراء ميں جانے كا حكم كيا ہے، اور اگر يہ حج كے ايام ميں ہو تو كيا اس كا حكم مختلف ہو گا ؟
غار حراء اور غار ثور ميں جانے كا حكم
سوال: 100274
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو غار حراء ميں جانے كا مقصد اللہ كا قرب حاصل كرنا ہو تو يہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہے اس كى كوئى شرعى دليل نہيں ملتى، اور پھر عبادات ميں اصل توقيف ہے يعنى جس طرح عبادات مشروع ہيں اسى طرح بجا لانا ہونگى ان ميں كوئى كمى يا زيادتى نہيں كى جا سكتى، لہذا وہى مشروع ہو گى جو اللہ تعالى نے يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كى ہو.
اور اگر صرف ديكھنے اور مطالعہ كى غرض سے ہو تو اس سے نہيں روكا جا سكتا، ليكن اگر انسان كو خدشہ ہو كہ جاہل قسم كے لوگ اس سے دھوكہ كھائينگے اور جائز سمجھنا شروع كر دينگے اور وہ بھى اس كى اقتدا كرينگے اور وہاں جانا قرب كا باعث اور عبادت خيال كرينگے تو پھر ديكھنے اور مطالعہ كى غرض سے بھى وہاں جانا جائز نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مكہ مكرمہ ميں مسجد حرام كے علاوہ باقى دوسرى مساجد كى زيارت كرنا مثلا صفا پہاڑى سے نيچے جو مسجد بنائى گئى ہے اور جو ابو قبيس پہاڑ كے دامن ميں مسجد ہے يا دوسرى مساجد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اورصحابہ كرام كے آثار پر بنائى گئى ہيں، نہ تو ان كى زيارت كرنا سنت ہے، اور نہ ہى آئمہ كرام ميں سے كسى نے اس كى مستحب قرار ديا ہے.
بلكہ مشروع تو يہ ہے كہ خاص كر مسجد حرام ميں جايا جائے، اور باقى مشاعر مقدسہ يعنى ميدان عرفات اور مزدلفہ اور صفا و مروہ اور اسى طرح پہاڑوں پر جانا اور مكہ كے ارد گرد مشاعر مقدسہ كے علاوہ دوسرى جگہوں مثلا جبل حراء اور منى كے قريب پہاڑ جس كے متعلق كہا جاتا ہے كہ وہاں فداء كا قبہ تھا وغيرہ جگہوں ميں جانا نہ تو سنت ہے اور نہ رسول ان جگہوں كى زيارت كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بلكہ ايسا كرنا بدعت شمار ہو گا ” انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 26 / 144 ).
شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے يہ بھى ذكر كيا ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چوتھا عمرہ حجۃ الوداع كے ساتھ ادا كيا اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بہت سارے مسلمان تھے آپ سے پيچھے كوئى بھى مسلمان نہيں رہا مگر جسے اللہ نے چاہا، اور اس سارے عرصہ ميں نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور نہ ہى كوئى صحابى غار حراء گئے اور نہ ہى اس كى زيارت كى اور اس كے علاوہ مكہ كے ارد گرد كسى اور جگہ كى زيارت بھى نہيں كى، وہاں صرف عبادت مسجد حرام ميں اور صفا و مروہ كے مابين سعى ميں اور منى و مزدلفہ اور ميدان عرفات ميں..
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين اور باقى سابقين اولين صحابہ كرام بھى كبھى غار حراء ميں نہيں گئے اور نہ ہى وہاں جا كر نماز ادا كى اور نہ ہى اس ميں دعاء كى.
يہ تو معلوم ہى ہے كہ اگر ايسا كرنا مشروع اور مستحب ہوتا جس پر اللہ تعالى اجروثواب ديتا ہے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سب لوگوں سے زيادہ اس كا علم ہوتا، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام بھى اس كو جانتے ہوتے، كيونكہ صحابہ كرام سب سے زيادہ اس كا علم ركھتے تھے، اور اپنے بعد آنے والوں كو اس كى رغبت ديتے.
جب ان ميں سے كسى ايك نے بھى اس كى طرف التفات بھى نہيں كيا تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہے جسے وہ عبادت اور اللہ كا قرب اور اطاعت شمار نہيں كرتےتھے، اس ليے جس نے بھى اسے عبادت اور اللہ كا قرب اور اطاعت قرار ديا تو اس نے صحابہ كرام كے علاوہ كسى اور كا طريقہ اختيار كيا اور دين ميں وہ چيز مشروع كى جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى ” انتہى
ماخوذ از: اقتضاء الصراط المستقيم ( 425 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جبل نور پر چڑھتے اور اترتے ہوئے كئى ايك حجاج كے گرنے كا حادثہ ہو چكا ہے، بعض لوگ يہ تجويز ديتے ہيں كہ وہاں سيڑھياں تعمير كر كے باقى سارى اطراف ميں لوہے كى جالى لگا كر بند كر ديا جائے تا كہ صرف مخصوص كردہ راستہ سے ہى اوپر اور نيچے آ جا سكيں كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” مذكورہ غار پر جانا نہ تو حج كے شعار ميں شامل ہے اور نہ ہى اسلام كى سنت ميں، بلكہ يہ بدعت اور اللہ كے ساتھ شرك كے ذرائع ميں شامل ہوتا ہے، اس بنا پر لوگوں كو وہاں چڑھنے سے روكنا چاہيے، اور اوپر جانے ميں آسانى پيدا كرنے كے ليے وہاں سيڑھياں تعمير نہيں كريں؛ تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل كيا جا سكے:
” جس كسى نے بھى ہمارے اس معاملہ ( دين ) ميں كوئى ايسا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے “
متفق عليہ.
وحى كے نزول كى ابتدا ہونے كو چودہ صديوں سے زيادہ عرص بيت چكا ہے، ہمارے علم ميں تو نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء ميں سے كسى ايك خليفہ نے اور يا كسى صحابى نے ايسا كيا ہو، بلكہ آئمہ كرام ميں سے بھى كسى ايك سے ايسا كرنا ثابت نہيں جنہيں ماضى كى تاريخ ميں مشاعر مقدسہ كى ذمہ دارى سونپى گئى كہ انہوں نے ايسا كيا ہو.
اور پھر يہ ياد ركھيں كہ سارى خير و بھلائى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے طريقہ كى اتباع كرنے ميں ہے، اور يہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے منہج كے موافق ہے اور پھر شرك كے سد ذرائع ميں شامل ہوتا ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 359 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بعض لوگ عمدا غار حراء ميں يہ خيال كرتے ہوئے جاتے ہيں كہ ايسا كرنا سنت ہے، حالانكہ ايسا نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نبوت سے قبل غار حراء ميں كئى راتيں عبادت كيا كرتے تھے، اور جب آپ پر وحى نازل ہوئى تو آپ غار حراء ميں ہى تھے، ليكن اس كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں نہيں گئے اور نہ ہى صحابہ كرام ميں سے كوئى صحابى وہاں گيا.
مكہ ميں ايك اور غار بھى ہے جہاں لوگ جاتے ہيں اور وہ غار ثور كہلاتى ہے جس ميں ہجرت كے وقت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم چھپے تھے، لوگ وہاں جانے كو بھى قرب كا باعث سمجھتے ہيں، نہ تو يہاں جانا سنت ہے، اور نہ ہى اللہ كے قرب كا باعث ہے، ليكن اگر كوئى شخص صرف اس ليے غار حراء يا غار ثور پر جاتا ہے كہ وہ اس كو ديكھ سكے ليكن وہ اسے قرب نہ سمجھتا ہو تو كيا اسے بھى روكا جائيگا اور يہ عمل غلط كہلائے گا ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ا س كا انكار نہيں كيا جائيگا، بلكہ انكار اس شخص پر ہو گا يا اس شخص كو روكا جائيگا جو وہاں جانے كو قرب سمجھتا ہو اور ايسا كر كے اللہ كا قرب حاصل كرتا ہو ” انتہى
ماخوذ از: اللقاء الشھرى ( 65 / 3 ).
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب