داؤن لود کریں
0 / 0
693302/10/2000

عقد نكاح اور رخصتى كے مابين طويل مدت كا حكم

سوال: 10048

كيا عقد نكاح اور رخصتى كے درميان ايك طويل عرصہ شرعا مكروہ ہے ؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين حفظہ اللہ كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:

مكروہ نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نكاح ہوا تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى عمر چھ برس تھى، اور جب ان كى رخصتى ہوئى تو ان كى عمر نو برس تھى.

بعض اوقات عقد نكاح پر شفقت كرتے ہوئے رخصتى ميں جلدى كى جاتى ہے كہ كہيں عورت اور اس كے خاندان والوں كى رائے ميں تبديلى نہ پيدا ہو جائے، لہذا رخصتى ميں جلدى كرنے ميں شرعا كوئى حرج نہيں.

ليكن ميرى رائے يہى ہے كہ عقد نكاح رخصتى كے وقت جتنا وقت ممكن ہو سكے قريب ہو تا كہ پيدا ہونے والى مشكلات كى تلافى كى جا سكے؛ يعنى ايسا اختلاف جو طلاق كا باعث بنے يا پھر فوتگى وغيرہ ہو.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے ” .

ماخذ

الشيخ محمد بن صالح العثيمين

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android