سوال: میں ابھی تک پڑھ رہا ہوں، میرا خرچ میرے والد صاحب برداشت کرتے ہیں، چونکہ میرے اخراجات اتنے زیادہ نہیں ہے، -الحمد للہ – تقریبا ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے مجھے یاد نہیں کہ کبھی میرے بٹوے میں پیسے ختم ہوئے ہوں، مجھے لگتا ہے اچھی طرح یاد نہیں ہے، لیکن اس دوران میرے پاس موجود رقم کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، میرے والد صاحب مجھے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں، جسکی وجہ سے میرے پاس موجود رقم کبھی (1000) سعودی ریال سے کم ہوتی ہے، اور کبھی (5000) سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں، تو کیا مجھے اپنے اس جیب خرچ میں سے زکاۃ دینی ہوگی؟ یہ بات علم میں رہے کہ میرے والد صاحب مجھے معین مقدار میں خرچہ نہیں دیتے ، اور نہ اسکے لئے کوئی وقت مقرر ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ:
1- اگر مجھ پر زکاۃ ہے تو میں زکاۃ کا حساب کیسے لگاؤں گا؟
2- کتنی مقدار میں مال جمع ہونے پر ایک سال گزرنے کے بعد اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے؟
والد کی طرف سے ملنے والے خرچے میں سے زکاۃ دینی ہوگی؟
سوال: 100570
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جو شخص نصاب کے برابر نقدی رقم کا با اختیار مالک ہو، اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکاۃ واجب ہو جائے گی۔
اور والد کی طرف سے اپنی اولاد کو دیا جانے والا جیب خرچ اولاد کی ملکیت ہوتا ہے، اولاد اسے کہیں بھی خرچ کرنے کیلئے با اختیار ہوتی ہے، چنانچہ اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔
دوم:
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کرنسی نوٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھے، اور علمائے کرام نے ان کرنسی نوٹوں پر زکاۃ سونا اور چاندی پر قیاس کرتے ہوئے بتلائی ہے۔
جبکہ سونے کا نصاب: 85 گرام، اور چاندی کا نصاب 595 گرام ہے۔
چنانچہ کرنسی نوٹ 85 گرام سونے یا 595 گرام چاندی کے برابر ہو جائیں تو کرنسی نوٹوں کا نصاب پورا ہو جائے گا۔
چاندی کی کم قیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنسی نوٹوں کیلئے چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے گا، کیونکہ یہی محتاط ، اور فقراء کے حق میں بہتر ہے۔
اور چاندی کے آج 12 ربیع الثانی 1428ھ بمطابق 29 اپریل 2007ءکے ریٹ کیمطابق کرنسی نوٹوں کا نصاب تقریبا: 1093 سعودی ریال بنتے ہیں۔
چنانچہ جب آپ اتنی مقدار میں کرنسی کے مالک بن جائیں، اور اس پر ایک سال گزر جائے، اور دوران سال میں آپکے پاس رقم اس مقدار سے کم نہ ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی، جو کہ 2.5٪ ہے۔
اور اگر دوران سال آپکے پاس موجود نقدی رقم نصاب کی مقدار سے کم ہو جائے تو اس میں زکاۃ نہیں ہوگی، حتی کہ دوبارہ سے نصاب مکمل ہو جائے، اور اس وقت نئے سرے سے سال شمار کیا جائے گا۔
اور اگر آپکے پاس موجود رقم میں تھوڑی سی کمی آئی ہے تو محتاط عمل یہی ہے کہ زکاۃ کا مالی سال جاری رکھتے ہوئے زکاۃ ادا کردی جائے، اسکی وجہ یہ ہے کہ سال بھر چاندی کا ریٹ بھی کم زیادہ ہوتا رہتا ہے، ایک جگہ پر نہیں رہتا۔
ہم اس موقع پر آپکے لئے تعریفی کلمات کہنے سے بھی گریز نہیں کرینگے کہ آ پ نے زکاۃ کے بارے میں خصوصی اہتمام کیا، حالانکہ آپ اپنا جیب خرچ اپنے والد سے لیتے ہو، لیکن اسکے باوجود اس میں آپ نے اللہ کے حق کا خیال رکھا، اور اسکے بارے میں شرعی حکم، اور طریقہ کار کے بارے میں پوچھا، جبکہ آج کل بہت سے کروڑ پتی افراد اسلام کے اس رکن سے غفلت کے مرتکب پائے جاتے ہیں، اور اپنے مال کے بارے میں اللہ کا حق جانتے ہی نہیں ، تھوڑا بہت بھی خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور اپنی ساری زندگی لالچ، طمع کرتے ہوئے مال جمع کرنے میں گزار دیتے ہیں، اور جب قیامت کے دن حساب کتاب کا سامنا کرنا پڑے گا تو اسکا یہی مال وخزانہ حسرت و ندامت کا باعث ہوگا۔
اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ [34] يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ )
ترجمہ: جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے [اے نبی] انہیں آپ درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے، [34] جس دن اس سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور کمرکو داغا جائے گا [اور کہا جائے گا]یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا لہذا اب اپنی جمع شدہ دولت کا مزا چکھو۔ التوبة/34-35
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکے مال میں برکت فرمائے، اور آپکو وسیع پاکیزہ رزق سے نوازے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب