شريعت ميں عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانے كا حكم كيا ہے، اور اسى طرح بچوں كى سالگرہ اور يوم والدہ اور ہفتہ شجركارى، اور يوم آزادى منانے كا حكم كيا ہے ؟
بدعتى تہوار منانا
سوال: 10070
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عيد اس تہوار كا نام ہے جس ميں بار بار اجتماع عادتا ہو، يا تو وہ سال بعد آئے يا پھر ايك ماہ بعد يا ايك ہفتہ بعد، عيد ميں كچھ امور جمع ہوتے ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
ـ وہ تہوار جو عيد الفطر اور يوم الجمعہ كى طرح بار بار آئے
ـ اس دن اجتماع ہو اور لوگ جمع ہوں.
ـ اس روز جو عبادات اور عادات جيسے اعمال كيے جاتے ہيں.
دوم:
ان تہواروں ميں جس سے تقرب و تمسك يا اجروثواب كے حصول كے ليے تعظيم ہو، يا اس ميں اہل جاہليت يا كفار كے گروہوں سے مشابہت ہوتى ہو، تو يہ تہوار بدعت اور دين ميں نئى ايجاد اور ممنوع ہيں.
يہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل عمومى فرمان كے تحت آتے ہيں:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز نكالى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى و مسلم.
ان تہواروں كى مثال عيد ميلاد اور سالگرہ كا تہوار اور يوم ماں، اور يوم آزادى ہے، پہلے تہوار ميں ايسى عبادت كى ايجاد ہے جس كا اللہ نے نہ تو حكم ديا اور نہ ہى اجازت دى، اور اسى طرح اس ميں نصارى اور دوسرے كفار كے ساتھ مشابہت بھى ہے.
دوسرى اور تيسرى ميں كفار سے مشابہت ہے، اور جس كا مقصد اعمال كو منظم كرنا جس ميں امت كى مصلحت اور اس كے امور كى تنظيم ہو، اور تعليم كے اوقات كى تنظيم اور ملازمين كا كام كے ليے جمع ہونا وغيرہ جو نہ تو تقرب اور عبادت كى طرف لے جائے، اور نہ ہى جس ميں اصلا تعظيم ہوتى ہو، تو يہ يہ ان عام بدعات ميں شمار ہوتے ہيں جو نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كے تحت نہيں آتے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
تو اسميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ مشروع ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
فتاوى اللجنة الدائمة 3/59