ميں مدرسہ تحفيظ القرآن كى ہيڈ مسٹرس ہوں، ميں نے استانيوں كو ايك يا دو باريك اور شفاف قسم كے كپڑے والا نقاب پہننے سے منع كيا ہے ليكن وہ اس سے انكار كرتى ہيں، اور دليل يہ ديتى ہيں كہ يہ حرام تو نہيں تو ميں طالبات كو ايسا كرنے سے كس طرح منع كر سكتى ہوں؛ كيونكہ طالبات مدرسہ سے چھٹى كے وقت باہر جا كر اس باريك كپڑے كو كھول ديتى ہيں، اور پھر گاڑيوں ميں سوار ہوتے وقت بھى، اور جب انہيں كہا جاتا ہے كہ وہ پورا پردہ كريں، تو لڑكياں يہ كہہ كر انكار كر ديتى ہيں كہ معلمات بھى تو اس پر عمل نہيں كرتيں، آپ سے گزارش ہے كہ آپ تفصيلى جواب سے نوازيں.
شرعى پردہ اور چادر كے اوصاف، كيا ہيڈ مسٹرس اور طالبات كو بھى اس كا اہتمام كرنا ہو گا ؟
سوال: 100719
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
پردہ اور عفت و عصمت كى حرص ركھنے، اور احتياط كرنے، اور معلمات اور طالبات كى صحيح راہنمائى اور انہيں نصيحت كرنے پر آپ كو اللہ تعالى جزائے خير عطا فرمائے، اور پھر يہ امانت كى ادائيگى ميں بھى شامل ہوتا ہے.
دوم:
ہم مسلمان عورت كو كئى ايك پردوں والى اوڑھنى اور دوپٹے سے چہرہ ڈھانپنا واجب نہيں كر سكتے، كيونكہ واجب اور فرض تو چہرہ چھپانا ہے، چاہے يہ ايك ہى پرت سے ہو يا كئى پرتوں كے ساتھ.
شريعت اسلاميہ ميں اوڑھنى اور نقاب مى اباحت پائى جاتى ہے، اور جو اہل علم نقاب پہننا منع كرتے ہيں وہ اس ليے نہيں منع كرتے كہ يہ اصل ميں مشروع نہيں، بلكہ بعض عورتوں كا نقاب كرنے كے طريقہ اور اس كے اوصاف ميں تجاوز كرنے كى بنا پر نقاب پہننے سے منع كرتے ہيں، كہ كچھ عورتوں نے نقاب كا سوراخ آنكھوں سے بھى زيادہ كيا ہوتا ہے، جس كى بنا پر ان كے رخسار اور پيشانى كا كچھ حصہ بھى نظر آنے لگتا ہے، اور اسى طرح اوڑھنى اور دوپٹے كے بارہ ميں كہا جا سكتا ہے، تو يہ بذاتہ منع نہيں كيا جاتا بلكہ اس كے اوڑھنےكے طريقہ يعنى كپڑا اتنا باريك اور شفاف ہو كہ اس كے اندر سے بھى چہرہ صاف نظر آتا ہو تو يہ منع ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے نقاب كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
” رہا نقاب: تو ابو عبيد عرب كے ہاں پائے جانے والے نقاب كا وصف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
يہ وہ نقاب ہے جس سے آنكھ كى گولائى نظر آئے، اور ان كے ہاں اسے وصوصہ اور برقع كا نام ديا جاتا تھا.
اور اس كا حكم يہ ہے كہ: يہ جائز ہے، اس كى دليل عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ احرام والى عورت نہ تو دستانے پہنے، اور نہ ہى نقاب كرے ”
اور ايك حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا آپ نے عورتوں كو احرام كى حالت ميں دستانے پہننے سے منع فرمايا ”
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب پہننے سے منع كرنا احرام كے علاوہ باقى حالات ميں نقاب كرنے كے جواز پر دلالت كرتا ہے، پھر يہ كہ اس حديث سے يہ مفہوم نہيں ليا جا سكتا كہ اگر اسے غير محرم اور اجنبى مرد ديكھ رہے ہوں تو احرام كى حالت ميں اس كے ليے چہرہ ننگا ركھنا جائز ہے، بلكہ غير محرم اور اجنبى مردوں كى موجودگى ميں احرام والى عورت بھى اپنا چہرہ ڈھانپ كر ركھے گى، اور اپنى اوڑھنى اور چادر كو يا نقاب كو چہرہ پر لٹكا لے گى حتى كہ وہ مرد وہاں سے آگے نكل جائيں.
اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
” ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں ہوتيں، جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں ” انتہى.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 171 – 172 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
اگر برقع زينت كے ليے نہ ہو بلكہ پردے كے ليے برقع پہنا جائے، اور اس كے ساتھ پردہ بھى ركھا جائے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ ديكھا نہيں جائيگا، بلكہ وہ اسے كسى اور چيز سے ڈھانك لےگى، ليكن جو برقع ظاہر ہو، اور پردہ نہ كرے ہم اس كے جواز كا فتوى نہيں ديتے؛ كيونكہ يہ فتنہ كا باعث ہے؛ اور اس ليے بھى كہ عورتيں اسى پر بس نہيں كرينگى، اگر عورتيں صرف ايك آنكھ كھلى ركھنے پر ہى اكتفا كرتيں ہو ہم كہتے: يہ نقاب ہے، جو كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى معروف تھا، اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن آپ اس پر ثقہ رہيں كہ اگر آپ يہ كہيں: عورت كے ليے آنكھوں كا نقاب كرنا جائز ہے، اور وہ نقاب كے پيچھے سے اپنى آنكھوں كے ساتھ ديكھ سكتى ہے.
تو كچھ مدت اور عرصہ كے بعد اس نقاب ميں وسعت اختيار كر لى جائےگى، اور اس كا سوراخ رخسار تك پہنچ جائيگا، اور آہستہ آہستہ سارا چہرہ ہى ننگا ہو جائيگا، اور عورتوں كى عادت كے متعلق معروف بھى يہى ہے، اس ليے يہ راہ بند كرنا ہى اقرب الى الصواب ہے ” انتہى.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 14 ) سوال نمبر ( 14 ).
اس بنا پر ہم معلمات اور باقى سب مسلمان بہنوں كو كہينگے كہ: جس نے بھى تم ميں سے اپنے چہرے كا پردہ كرنا اختيار كيا اس نے اپنے ليے زيادہ ستر اختيار كيا، اور اپنے دين كے ليے اكمل چيز اختيار كي، ليكن اسے چاہيے كہ وہ اوڑھنى اور چادر اور پردہ اور نقاب كرنے ميں شرعى اوصاف اختيار كرے، اس كے ليے آنكھوں سے زيادہ بڑا سوراخ كرنا جائز نہيں كہ آنكھوں علاوہ كچھ اور بھى ظاہر ہو، اور اسى طرح دوپٹہ يا پردہ اتنار باريك نہ ہو كہ اس سے چہرہ صاف نظر آ رہا ہو.
علقمہ بن ابى علقمہ اپنى والدہ سے بيان كرتے ہيں كہ ان كى والدہ نے كہا:
” حفصہ بنت عبد الرحمن ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئيں تو حفصہ نے باريك دوپٹہ اوڑھ ركھا تھا، تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اسے پھاڑ كر انہيں موٹا دوپٹہ اوڑھا ديا ”
موطا امام مالك حديث نمبر ( 1693 ) سنن بيہقى ( 2 / 235 ) اس كى سند صحيح ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہر وہ كپڑا جو جسم كا وصف ظاہر كرے، اور اسے چھپائے نہ تو اس كا كسى بھى حالت ميں پہننا جائز نہيں، ليكن اس كپڑے كے ساتھ پہنا جا سكتا ہے جو وصف ظاہر نہ كرتا ہو؛ كيونكہ ايسا لباس پہننے والى عورت ننگى ہے، جيسا كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں، اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بھى يہى ثابت ہے ” انتہى.
ديكھيں: الاستذكار ( 8 / 307 ).
ايك چيز اور يہ ہے كہ: تحفيظ كے مركز ميں آپ كى ذمہ دارى ہے كہ آپ معلمات اور طالبات كو مركز كے اندر پردے كا التزام ضرور كروائيں، اور مركز ميں آنے سے قبل يا پھر آنے سے قبل جو كچھ ہوتا ہے، آپ اس كى ذمہ دار نہيں، صرف اتنا ہے كہ آپ انہيں وعظ و نصيحت اور ان كى راہنمائى كريں، اور انہيں كسى معين چيز كے پہننا لازم مت كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو ہر بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے اور معلمات اور طالبات كو خير و بھلائى اور سيدھى راہ كى ہدايت دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب