0 / 0
12,50106/08/2006

اذان كا حكم

سوال: 10078

كيا اذان واجب ہے ؟
ہم كالج كے سٹوڈنٹ ہيں اور نماز كے ليے مختص جگہ پر نماز ادا كرتے ہيں، كيا ہمارے ليے نماز سے قبل اذان دينا ضرورى ہے، حالانكہ ہميں دوسرى مساجد كى اذان سنائى ديتى ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

لغت عرب ميں اذان اعلان اور معلوم كرانے كو كہتے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں ميں حج كا اعلان كر ديں الحج ( 27 ).

يعنى انہيں حج كا بتا ديں.

اور شرعيت ميں اذان كى تعريف يہ ہے كہ:

فرضى نمازوں كے اوقات كا ثابت شدہ الفاظ اور مخصوص طريقہ پر اعلان كر كے اللہ تعالى كى عبادت كرنا.

دوم:

فقھاء كرام كا اس پر اتفاق ہے كہ اذان اسلام كے خصائص اور دين كا ظاہرى شعار اور علامت ہے.

ليكن اس كے حكم ميں اختلاف ہے:

ايك قول يہ ہے كہ يہ فرض كفايہ ہے، امام احمد كا مسلك يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور معاصرين علماء كرام ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے يہى اختيار كيا ہے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ:

يہ سنت مؤكدہ ہے.

دونوں ميں صحيح قول يہ ہے كہ اذان فرض كفايہ ہے، چنانچہ اگر اسے كوئى ايك شخص ادا كرے كہ وہ كافى ہو تو باقى افراد سے ساقط ہو جائيگى.

اس كى دليل سنت نبويہ ميں سے درج ذيل حديث ہے:

مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے تو ہمارى عمريں تقريبا سب كى برابر تھى اور ہم سب نوجوان تھے، ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيس راتيں ٹھرے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بڑى شفقت كرنے والے اور رحم دل تھے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خيال كيا كہ ہم اپنے گھروں اور اہل و عيال ميں واپس جانے كا شوق ركھتے ہيں، تو انہوں نے ہميں اپنے پيچھے اہل وعيال كے بارہ ميں دريافت كيا، ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كے متعلق بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" تم اپنے اہل و عيال ميں جاؤ اور وہاں ان كے پاس جا كر رہو، اور انہيں تعليم دو، اور اور احكام بتاؤ، اورجب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے ايك شخص اذان كہے،ا ور تم ميں سے بڑا شخص تمہيں نماز پڑھائے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 602 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 674 ).

بخارى شريف كى ايك روايت ميں ہے:

" جب تم دونوں نكلو تو اذان كہو اور تم ميں سے بڑا تمہارى امامت كرائے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 604 ).

اور ترمذى و نسائى كى روايت ميں ہے:

مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں اور ميرا چچا زاد ہم دونوں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم دونوں سفر پر نكلو تو اذان كہہ كر اقامت كہو اور تم ميں سے بڑا تمہارى امامت كروائے "

جامع ترمذى حديث نمبر ( 205 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 634 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " اراء الغليل " ( 1 / 230 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ اذان فرض كفايہ ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جماعت ميں سے صرف ايك شخص كو اذان دينے كا حكم ديا، نہ كہ سارى جماعت كو.

ديكھيں: توضيح الاحكام ( 1 / 424 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں مسافروں كے ليے نماز باجماعت اور اذان كى مشروعيت پائى جاتى ہے، اور حضر و سفر ميں اذان دينے كى پابندى پر ابھارا گيا ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 5 / 175 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

شہر و علاقے ميں اذان دينا فرض كفايہ ہے، اور اسى طرح اقامت بھى، اور اگر جھالت كى بنا پر يا غلطى وغيرہ سے بغير اذان اور اقامت كے نماز باجماعت ادا كى جائے تو اس كى نماز صحيح ہو گى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 54 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور ان دونوں ـ يعنى اذان اور اقامت ـ كى فرضيت كى دليل كئى ايك احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم اور سفر و حضر ميں اس كى پابندى ہے، اور اس ليے بھى كہ غالب طور پر نماز كے وقت كا ان دونوں كے بغير علم ہى نہيں ہوتا، اور ان دونوں كے ساتھ مصلحت متعين ہے، كيونكہ يہ دين اسلام كے ظاہرى شعار اور علامت ميں شال ہوتے ہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 38 ).

اذان كے فرض كفايہ ہونے كى بنا پر يہ معلوم ہوا كہ اگر علاقے اور شھر ميں جب اذان ہو تو اس وقت سننے والى ہر جماعت پر اذان دينا واجب نہيں بلكہ وہى اذان كافى ہو گى، اگرچہ افضل اور بہتر يہى ہے كہ اذان ترك نہ كى جائے چاہے نماز اكيلا ہى كيوں نہ ہو.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا محلہ كى سب مساجد ميں لاؤڈ سپيكروں كے ذريعہ اذان دينا واجب ہے، حالانكہ ايك مسجد كى آواز سب محلہ والے سنتے ہيں ؟

اور كيا محلہ كى ايك مسجد كى اذان كافى ہو گى ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

اذان دينا فرض كفايہ ہے، چنانچہ اگر محلہ ميں ايك مؤذن اذان دے اور محلہ كے سارے رہائشى اسے سن ليں تو يہ كافى ہو گى، ليكن عمومى دلائل كے پيش نظر ہر مسجد والوں كے ليے اذان دينا مشروع ہے.

اس بنا پر آپ كے ليے افضل اور بہتر يہى ہے كہ آپ اذان كہا كريں، اگرچہ ايسا كرنا آپ پر واجب اور ضرورى نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android