ميرى خاوند كے ساتھ شديد تلخ كلامى ہوئى اور خاوند مجھے كہنے لگا: تم ميرى بيوى نہيں ميں تيرے پاس كبھى نہيں آؤنگا ”
اس كے ساتھ يہ ہوا كہ اسى دن شام كو ميں بيمار ہو گئى تو خاوند نے مجھے دم كيا اور بتايا كہ اس نے جو كچھ كہا ہے اس پر افسوس ہے، اس كے بعد ميں نے اس كے بارہ ميں پوچھا تو مجھے كہنے لگا:
جب اس نے مجھے يہ بات كہى تو تو اس سے طلاق كا ارادہ نہ تھا، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ” تم ميرى بيوى نہيں ” كہنے سے طلاق واقع ہو گئى ہے يا نہيں ؟
يہ كچھ عرصہ پہلے بات ہوئى تھى اس كے بعد ميں نے ايك كتاب پڑھى جس ميں تھا كہ بعض علماء كہتے ہيں كہ طلاق كے ليے صريح الفاظ بولنا ضرورى ہے، ليكن كچھ علماء اس رائے كى مخالفت كرتے ہيں.
مجھے بعض اوقات وسوسہ آتا ہے كہ جو كچھ ہوا اس سے ہمارے درميان طلاق ہو چكى ہے اور ہمارا نكاح فاسد ہے، الحمد للہ ميرى دو بيٹياں ہيں اس كے بعد دوبارہ اس طرح كا جھگڑا نہيں ہوا، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت فرمائيں.
خاوند نے بيوى كو كہا: تم ميرى بيوى نہيں اور ميں كبھى تيرے پاس نہيں آؤنگا
سوال: 100997
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
خاوند كا بيوى كو كہنا: تم ميرى بيوى نہيں، ميں تمہارے پاس بالكل نہيں آؤنگا ” يہ طلاق كے كنايہ ميں شامل ہوتا ہے، طلاق يا تو صريح الفاظ ميں ہوتى ہے، يا پھر كنايہ كے الفاظ ميں، صريح طلاق بغير كسى نيت كے واقع ہو جاتى ہے، ليكن كنايہ كے الفاظ سے اس وقت تك طلاق نہيں ہوگى جب تك طلاق كى نيت نہ ہو.
اس ليے كہ آپ كے خاوند نے اس قول سے طلاق كى نيت نہيں كى لہذا طلاق واقع نہيں ہوئى.
الانصاف ار كشاف القناع ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
” آدمى كا اپنى بيوى كو كہنا كہ تم ميرى بيوى نہيں يہ طلاق كے كنايہ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے جب اس سے طلاق كى نيت كى جائے تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر طلاق كى نيت نہ ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى “
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 468 ) كشاف القناع ( 5 / 250 ) اور تحفۃ المحتاج ( 8 / 6 ) اور تبيين الحقائق ( 2 / 218 ) ميں بھى ايسے ہى درج ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے مابين محبت و الفت قائم كرے، اور آپ كو خير و بھلائى اور اپنى اطاعت پر جمع ركھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب