ميرا سوال ان كريموں اور نہانے والے شيمپو كے متعلق ہے جس ميں يوريا مادہ پايا جاتا ہے، كيا اس كو استعمال كرنے والے لوگ پاك ہيں يا ناپاك ؟
اور يہ استعمال كرنے كے بعد ناپاك يعنى عدم طہارت ہونے كى شكل ميں جو نمازيں ادا ہو چكى ہيں ان كا حكم كيا ہے، كيا يہ نمازيں صحيح ہيں، يا كہ انہيں لوٹانا ہوگا ؟
گزارش ہے كہ مجھے ان كى تعداد ياد نہيں ليكن اتنا ياد پڑتا ہے كہ يہ زيادہ نہيں ہيں ؟
يوريا مادہ پر مشتمل جلد نرم كرنے والى كريم اور جسم دھونے والے شيمپو استعمال كرنا
سوال: 101283
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يوريا ايك ايسا مركب عضوى ہے جو انسان كا جسم اور بہت سارے دوسرے حيوانات خارج كرتے ہيں، اور يہ مصنوعى طور پر بھى بنا كر كئى ايك اشياء ميں استعمال كيا جاتا ہے، مثلا مواشى كے چارہ ميں، اور ڈسپنسرى اور پلاسٹك كى اشياء ميں بھى.
انسانى جسم زائد نيٹروجن سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے يوريا خارج كرتا ہے، اور اصل ميں يہ جگر كے اندر تيار ہوتا ہے، اور اس سے خلاصى اكثر طور پر پيشاب كے ذريعہ ہوتى ہے.
مصنوعى طور پر سب سے پہلے يوريا عضوى مركب ہى ايسا ہے جو غير عضوى مادہ سے تيار كيا گيا، چنانچہ ( 1828م ) ميلادى ميں جرمنى كا كيمائى سانسدان فريڈرك فولر يہ مادہ پانى كے محلول سے تيار كرنے ميں كامياب ہو جو المونيم سے بنايا گيا تھا، اور يہ غير عضوى مركب ہے، اور فولر كے اس عمل كى مدد اس اعتقاد نے كى مركبات عضويہ كى تكوين صرف نيچرل قوى كے ساتھ زندہ كائنات ميں ہو سكتى ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ العلميۃ العالميۃ.
اور يہ مصنوعى طور پر تيار كردہ مادہ طاہر ہے، اس كے استعمال ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اشياء ميں اصل طہارت ہى ہے.
اس بنا پر اسے جلدى كريموں يا نہانے والے شيمپو وغيرہ ميں ڈالنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ يوريا پيشاب سے حاصل كيا جاتا ہے ـ حالانكہ يہ بہت بعيد ہے ـ تو اگر يہ ان جانوروں كے پيشاب سے حاصل كيا جاتا ہو جن كا گوشت كھايا جاتا ہے مثلا گائے، اونٹ اور بكرى، گھوڑا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ ان كا پيشاب طاہر ہے.
اور اگر انسان يا كسى اور جانور جس كا گوشت نہيں كھايا جاتا كے پيشاب سے بنايا گيا ہو تو يہ نجس ہے، ليكن اس ميں ايسا مواد شامل كرنے سے جو اس كى نجاست كے اوصاف ختم كر دے اور اس كا ذائقہ، يا رنگ يا بو ختم ہو جائے تو يہ اس سے پاك ہو جاتا ہے راجح قول يہى ہے، اور اس تيل وغيرہ ميں اس كا استعمال جائز ہو گا ليكن شرط يہ ہے كہ اس سے كوئى نقصان اور ضرر نہ ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب