ميں ملازمت كے ليے سفر پر گيا اور ميرى بيوى ميرے گھر والوں كے ساتھ رہتى تھى كہ ميرے اور بيوى كے مابين موبائل ميسج كے ذريعہ جھگڑا ہوگيا، ايك بار اس نے مجھے تنگ كيا تو ميں نے اسے ميسج كيا جس ميں كچھ سخت كلمات تھے، تو بيوى نے اپنے ميكے جانے كا فيصلہ كر ليا.
جب مجھے اس كا علم ہوا تو ميں غصہ ميں آ گيا اور غصہ كى حالت ميں ہى اسے ميسج كيا اور اس ميں قسم اٹھا كر كہا: ميرے باپ كے سر كى قسم جب تو نے ميرے گھر والوں كے سامنے مجھے چھوٹا اور حقير بنا ديا ہے تو ميں بھى تجھ سے خلاصى حاصل كر كے رہوں گا اور ميں يہيں ہوں كل تم ديكھو گى ليكن حمل مكمل كر لو ”
اور دو روز بعد ميں نے ايك اور ميسج كيا جس ميں اس سے كہا: ” فليٹ كى چابى بھيج دو تا كہ وہ آپ كا سامان بھي جديں كيونكہ ميں نے قسم اٹھائى ہے كہ تم اس فليٹ ميں دوبارہ نہيں جاؤگى ”
يہ علم ميں رہے كہ ميں نے قسم كے الفاظ زبان سے ادا نہيں كيے تھے، اللہ جانتا ہے كہ مير اس سب سے صرف اسے دھمكانا مقصود تھا اور متنبہ كرنا تھا كہ وہ اجازت كے بغير كچھ نہ كرے ميں نے بارہ يوم تك اس سے بات چيت نہيں كى، پھر مجھے ايك دوست نے نصيحت كى كہ اس ميں ميرى غلطى تھى چنانچہ ميں نے بيوى كو فون كر كے معذرت كر لى.
تو كيا پہلا ميسج معلق يا مشروط طلاق شمار ہوگا اور كيا يہ طلاق كى كوئى قسم شمار ہو گى ؟
دوسرے ميسج ميں قسم كا حكم كيا ہے ؟
طلاق كى دھمكى طلاق شمار نہيں ہوتى
سوال: 101564
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہر مسلمان كو چاہيے كہ وہ اپنى زبان كى حفاظت كرے اور كوئى ايسا الفاظ مت نكالے جس سے مخاطب كو تكليف ہو اور اس كے جذبات مجروح ہوں، كيونكہ يہ چيز مكارم اخلاق كے منافى ہے، اور شيطان كے ليے دروازہ كھولتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ( اے ميرے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ ميرے بندوں سے كہہ ديں وہ ايسى بات كريں جو بہتر و اچھى ہو، يقينا شيطان تو ان كے مابين اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، يقينا شيطان انسان كا كھلا اور واضح دشمن ہے الاسراء ( 53 ).
جب خاوند اور بيوى كے مابين بات چيت ہو تو يہ اس كى اور بھى زيادہ تاكيد ہو جاتى ہے، كيونكہ ان دونوں ميں تو بہت عظيم رابطہ ہے، اور آپس كے بہت زيادہ اور بڑے حقوق ہيں.
اس ليے انسان كو چاہيے كہ وہ اپنى غلطى كا اعتراف كرنے كى تربيت حاصل كرے، اور اس غلطى سے رجوع كرنے كى تربيت لے، كيونكہ يہ اس كے واجب ہونے كے ساتھ ساتھ اس كے شرف و كمال پر دلالت كرتا ہے، اور تكبر كرنے والوں كے خلاف جو كہ اسے ذلت و رسوائى اور توہين خيال كرتے ہيں.
دوم:
اللہ سبحانہ و تعالى كے علاوہ كسى اور كى قسم اٹھانا جائز نہيں مثلا انسان اپنے ماں باپ كے سر كى قسم اٹھائے، يا پھر ان كى زندگى كى قسم؛ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى غير اللہ كى قسم اٹھائى اس نے كفر يا شرك كيا ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1535 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3251 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے جو كوئى بھى قسم اٹھانا چاہتا ہو يا تو وہ اللہ كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے:
آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو كوئى بھى قسم اٹھائے تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ كى قسم اٹھائے يا پھر خاموشى اختيار كرے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2679 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1646 ).
سوم:
آپ نے اپنى بيوى كو پہلے ميسج ميں جو كہا وہ طلاق شمار نہيں ہوتى، بلكہ وہ تو طلاق كى دھمكى تھى، اس سے طلاق واقع تو اسى صورت ميں ہوگى جب آپ طلاق ديں گے.
چہارم:
آپ كا دوسرےميسج ميں ” ميں نے قسم اٹھائى ہے كہ تم دوبارہ اس فليٹ ميں نہ جاؤ ـ حالانكہ آپ نے قسم نہيں اٹھائى تھى ـ يہ جھوٹ ہے جس سے انسان كے ليے توبہ كرنى واجب و ضرورى ہے، اور وہ آئندہ عزم كرے كہ وہ ايسا نہيں كريگا، اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب