كيا عدالت سے طلاق كا فيصلہ ہو جانے كے تقريبا دو ماہ بعد بيوى سے معاشرت كرنے سے رجوع ثابت ہو جائيگا، مطلقہ بيوى اس كے پاس آئى تو اس نے اس سے جماع كر ليا اور احتمال ہے كہ وہ اس سے حاملہ بھى ہو گئى ہے، كيا اسے رجوع شمار كيا جائيگا، اور اس حالت ميں حمل شرعى ہو گا يا نہيں ؟
مطلقہ بيوى سے رجوع كى نيت كيے بغير جماع كر ليا اور وہ حاملہ ہو گئى
سوال: 101702
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رجعى طلاق والى عورت كى طلاق تين حيض ہے، اگر اسے حيض نہ آتا ہو يعنى چھوٹى ہو يا پھر حيض سے نااميد ہو چكى ہو تو تين ماہ عدت شمار ہوگى، اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور طلاق والياں تين حيض انتظار كريں البقرۃ ( 228 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور وہ عورتيں جو حيض سے نا اميد ہو چكى ہيں اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين ماہ ہے اور جنہيں حيض نہيں آيا الطلاق ( 4 ).
خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ عدت كے دوران بيوى سے رجوع كر لے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو.
رجوع پر دلالت كرنے والے قول سے بھى رجوع ہو جائيگا اس پر علماء كا اتفاق ہے مثلا كہے ميں نے تجھ سے رجوع كيا.
فعل كے ساتھ بيوى سے رجوع كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے مثلا: جماع اور اس كى ابتدائى اشياء يعنى بيوى سے بوس و كنار كرنا، اس ميں علماء كے چار قول ہيں:
پہلا قول:
احناف كہتے ہيں كہ جماع كرنے اور شہوت سے بوس و كنار كرنے سے كے ساتھ رجوع ہو جائيگا چاہے درميان ميں حائل بھى ہو ليكن شہوت كى حرارت ہونى چاہيے، انہوں نے اس سب كو رجوع پر محمول كيا ہے، گويا كہ وہ اپنى وطئ اور جماع سے اس سے رجوع كرنے پر راضى ہو گيا ہے.
دوسرا قول:
مالكيہ كے ہاں جماع اور اس كے مقدمات سے رجوع ہو جائيگا ليكن شرط يہ ہے كہ خاوند اس ميں رجوع كى نيت كرے، اس ليے اگر اس نے رجوع كى نيت سے بيوى كا بوسہ ليا يا اسے شہوت سے چھو ليا يا جماع والى جگہ كو شہوت سے ديكھا يا اس سے وطئ اور جماع كيا ليكن اس ميں رجوع كى نيت نہ تھى تو ان اشياء سے رجوع صحيح نہيں ہوگا، بلكہ اس نے حرام كا ارتكاب كيا.
تيسرا قول:
شافعى حضرات كہتے ہيں كہ رجوع صرف قول كے ساتھ ہى صحيح ہوگا، مطلقا فعل كے ساتھ رجوع صحيح نہيں، چاہے وطئ ہو يا اس كے مقدمات اور چاہے فعل ميں اس نے رجوع كى نيت بھى كى ہو يا نيت نہ ہو.
چوتھا قول:
حنابلہ كہتے ہيں كہ وطئ كے ساتھ رجوع صحيح ہے چاہے خاوند نے بيوى سے رجوع كى نيت كى ہو يا نيت نہ كى ہو، ليكن وطئ كے مقدمات سے صحيح مذہب ميں رجوع ثابت نہيں ہو گا.
ديكھيں: تبيين الحقائق ( 2 / 251 ) حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 399 ) الخرشى على خليل ( 4 / 81 ) حاشيۃ البجيرمى ( 4 / 41 ) الانصاف ( 9 / 156 ) مطالب اولى النھى ( 5 / 480 ).
راجح يہى ہے كہ وطئ و جماع سے رجوع ہو جائيگا ليكن اس ميں رجوع كى نيت شرط ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” دوسرا قول:
وطئ ميں رجوع كى نيت سے رجوع حاصل ہوگا؛ كيونكہ صرف وطئ تو بعض اوقات كسى اجنبى عورت كى بھى كر ليتا ہے مثلا زنا كرتا ہے، تو ہو سكتا ہے اس شخص كو شہوت آ گئى اور اس نے جماع كر ليا يا پھر اس عورت كو خوبصورتى كيے ہوئے ديكھا اور اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكا تو اس سے جماع كر ليا ليكن رجوع كى نيت نہ كى اور نہ ہى رجوع كا ارادہ كيا.
اور نہ ہى اس سے رجوع كرنے كى نيت تھى، چنانچہ اس قول كى بنا پر رجوع كى نيت كے بغير جماع سے رجوع نہيں ہو گا، اور صحيح بھى يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے اس سے رجوع كرنے كى نيت سےجماع ہو تو يہ رجوع شمار ہوگا، اور ہو سكتا ہے صرف شہوت پورى كرنے كے ليے جماع و وطئ ہو تو يہ رجوع پر دلالت نہيں كرتى… ”
شيخ كا يہاں تك كہنا ہے:
اس ليے صحيح يہى ہے كہ صرف وطئ سے رجوع نہيں ہو جائيگا بلكہ جب رجوع كى نيت سے جماع كيا جائے اور اس نے اسے اس بنا پر مباح سمجھا كہ وہ اس كى بيوى ہے تو پھر رجوع ہو گا، ليكن اس قول كى بنا پر اگر اس نے رجوع كى نيت كے بغير جماع كر ليا اور اس جماع سے بچہ پيدا ہو گيا تو كيا يہ اس كا بچہ كہلائيگا ؟
جواب يہ ہے كہ: جى ہاں يہ اس كا بچہ ہوگا كيونكہ يہ وطئ شبہ ہے، اس ليے كہ وہ اس كى بيوى تھى اور عدت سے نہيں نكلى تھى، اور اس پر زنا كى حد نہيں لگائى جائيگى، بلكہ تعزير لگائى جائيگى ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 189 ).
فقھاء كرام نے مستحب قرار ديا ہے كہ وہ رجوع كرتے وقت دو گواہ بنا لے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جب وہ اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں يا تو انہيں اچھے طريقہ سے ركھ لو يا پھر اچھے طريقہ سے انہيں فارغ كر دو، اور اس پر اپنے ميں سے دو عادل گواہ بنا لو، اور اللہ تعالى كى رضامندى كے ليے ٹھيك ٹھيك گواہى دو، يہى ہے وہ جس كى اسے نصيحت كى جاتى ہے جو اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر ايمان ركھتا ہو، اور جو كوئى اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس كے ليے چھٹكارے كى شكل نكال ديتا ہے الطلاق ( 2 ).
اور بعض فقھاء نے تو مطلقہ عورت اپنے خاوند كو جماع نہ كرنے دے حتى كہ وہ اس پر دو گواہ نہ بنا لے فقھاء نے اسے عورت كى كمال عقل و رشد ميں شمار كيا ہے.
الخرشى كہتے ہيں:
” جس شخص نے اپنى بيوى كو طلاق رجعى دى اور پھر اس سے رجوع كر ليا اور اس سے جماع كرنا چاہے اور بيوى اسے روك دے اور كہے كہ وہ پہلے دو گواہ بنائے تو يہ اس كا حق ہے اور يہ چيز عورت كى رشد و عقل كى دليل ہے، اس سے وہ خاوند كى نافرمان نہيں كہلائيگى بلكہ اس منع كرنے پر اسے اجروثواب ہوگا ” انتہى
ديكھيں: شرح الخرشى على مختصر خليل ( 4 / 87 ).
دوم:
اس خاوند كو اللہ سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے كہ اس نے رجوع كى نيت كے بغير اس نے اپنى مطلقہ كو جماع پر راضى كر ليا اور اسے چاہيے كہ اگر حمل ہو گيا ہے تو وہ اپنے بچے كا اقرار كرے اور طلاق كے مسئلہ ميں اپنے نظريہ كو تبديل كر لے اور اسى ميں مصلحت ہے كہ وہ اپنى بيوى سے رجوع كرے اور بيوى اور بچے كا حق ادا كرے.
سوم:
جب شرعى قاضى كى عدالت ميں يہ مقدمہ جائے اور قاضى كو جو راجح معلوم ہو وہ اس كے مطابق فيصلہ كرے تو اس فيصلہ كو خاوند اور بيوى دونوں تسليم كريں كيونكہ قاضى كا فيصلہ اختلاف كو ختم كر ديتا ہے.
اور اس ليے كہ آپ يورپى ملك ميں رہتے ہيں جہاں شرعى عدالت و قاضى كا وجود نہيں اس ليے ہمارى رائے ہے كہ آپ كسى اہل علم سے اپنا فيصلہ كرائيں ( اس كے ليے آپ اسلامى مراكز جا سكتے ہيں ) اور وہ شخص آپ كے اس مسئلہ ميں وہ حكم لگائے جو اسے ظاہر معلوم ہو، تو قاضى كى طرح اس كا فيصلہ نافذ ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب