موبائل فون ايك نئى چيز ہے ليكن جب لوگ نماز كے ليے مساجد ميں آتے ہيں تو موبائل بند نہيں كرتے، چنانچہ دوران نماز ہى موبائل فون كى گھنٹياں بجنى شروع ہو جاتى ہيں، جس كى بنا پر نمازيوں كى نماز ميں خلل پيدا ہوتا ہے اور نمازى اپنى نماز ميں دھيان نہيں دے سكتے.
اس موضوع كے متعلق اسلام كا حكم كيا ہے ؟
مساجد ميں موبائل فون كى ٹونز كى مشكل
سوال: 10193
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اسلام نے كوشش اورحرص ركھى ہے كہ مسلمان شخص كى نماز مكمل خشوع و خضوع كے ساتھ ہو، اور ہر ايسے كام سے دور ہو جو اسے نماز كے علاوہ كسى اور چيز ميں مشغول كردے، اس سلسلے ميں اسلام نے جن اشياء اور امور كا خيال ركھا ہے ان ميں درج ذيل امور شامل ہيں:
1 – انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” ہم شديد گرمى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نماز ادا كر رہے تھے، جب ہم ميں سے كوئى شخص اپنا چہرہ زمين پر نہيں لگا سكتا تھا تو وہ اپنا كپڑا زمين پر بچھا كر سجدہ كرتا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1150 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 620 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس سے ظاہر يہ ہوتا ہے كہ ان كا يہ عمل زمين كى تپش سے پيدا ہونے والى تشويش كو زائل كرنے كے تھا.
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 493 ).
2 – عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك قميص ميں كچھ نشانات تھے چنانچہ انہوں نے ان نشانات كو ديكھا، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
ميرى يہ قيمص ابو جھم كے پاس لے جاؤ اور اس سے بغير نقش ونگار كے چادر لاؤ، كيونكہ اس نے تھوڑى دير قبل مجھے نماز كہيں اور مشغول كر ديا تھا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 366 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 556 ).
3 – عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب نماز كى اقامت ہو جائے، اور رات كا كھانا حاضر ہو تو پھر كھانا پہلے كھاؤ ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5148 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 558 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فاكھانى كا كہنا ہے: علت جو كہ خشوع كو ختم كرنے كا باعث بنے اسے ديكھتے ہوئے اسے عموم پر محمول كرنا چاہيے.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 160 ).
4 – ابو صالح السمان رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ميں نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى كو جمعہ كے روز سترہ كے پيچھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا، چنانچہ بنو ابو معيط كے ايك نوجوان نے ان كے آگے سے گزرنا چاہا تو ابو سعيد رضى اللہ تعالى نے اس كے سينہ سے دھكا ديا، تو نوجوان نے ان كے آگے سے گزرنے كے علاوہ كوئى اور راہ نہ پايا تو اس نے دوبارہ آگے سے گزرنے كى كوشش كى، تو ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ نے پہلى بار سے بھى زيادہ شدت سے روكا، تو اس نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ پر غصہ كيا اور جا كر مروان كو ابو سعيد كى شكايت كر دى, اور ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بھى اس كے پيچھے ہى مروان كے پاس چلے گئے، تو وہ كہنے لگا:
ابو سعيد آپ اور آپكے بھتيجے كا كيا معاملہ ہے ؟
تو ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
” جب تم ميں سے كوئى شخص سترہ كے پيچھے نماز ادا كر رہا ہو جو اسے لوگوں سے محفوظ ركھے، اور كوئى اس كے سامنے سے گزرنا چاہے تو وہ اسے روكے، اور اگر وہ انكار كرے تو وہ اس كے ساتھ جھگڑے، كيونكہ وہ شيطان ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 487 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 505 ).
زرقانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يقينا وہ شيطان ہے ” يعنى اس كا فعل شيطانى فعل ہے؛ كيونكہ اس نے نمازى كى نماز خراب كرنے كى كوشش كى ہے.
ديكھيں: شرح الزرقانى ( 1 / 442 ).
5 – ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں اعتكاف بيٹھے ہوئے تھے، تو لوگوں كو بلند آواز سے قرآت كرتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا كر فرمانے لگے:
تم ميں سے ہر شخص اپنے رب كے ساتھ مناجات كر رہا ہے، لھذا تم ايك دوسرے كو اذيت سے دوچار مت كرو، اور قرآت ميں ايك دوسرے سے آواز بلند مت كرو. ـ يا فرمايا: نماز ميں ـ ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1332 ).
ہم ديكھتے ہيں كہ اس آخرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو منع فرمايا ہے كہ وہ كسى دوسرے كو نماز يا قرات قرآن كے ذريعہ مشغول نہ كريں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس پر راضى نہيں كہ كسى ايك كى نماز يا قرآت كسى دوسرے كى نماز ميں خلل پيدا كرے.
خلاصہ يہ ہوا:
دين اسلام نماز ميں خشوع و خضوع اختيار كرنے پر ابھارتا ہے، اور نماز كو صحيح طرح ادا كرنے كا كہتا ہے، آج ہم جو موبائل اس حالت ميں ديكھتے ہيں كہ جو آپ نے بيان كى ہے، جس كى بنا پر نماز ميں خشوع و خضوع ختم ہو كر رہ جاتا ہے، كيونكہ اس سے نماز ميں خلل پيدا ہوتا ہے، اور يہ نماز ميں اطمنان كى روح كے ليے بھى مضر ہے.
ہم موبائل ركھنے والے بھائيوں كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ نماز كے ليے جب مسجد ميں آئيں تو انہيں بند كرليں، يا پھر اسے كى آواز بند كر كے اسے سائلنٹ كى حالت ميں كر ليں، تا كہ نمازيوں كو ہونے والى اذيت ختم ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب