کیا عورت کے لئے گھر سے خوشبو لگا کر نکلنا جائز ہے؟ یہ واضح رہے کہ بیوی اپنے خاوند کے ساتھ گھر سے باہر جاتی ہے، عورت کا گزر مردوں کے پاس سے بھی نہیں ہو گا۔ اور اگر راستے میں کوئی ناگہانی صورت پیدا ہو جاتی ہے یا حادثہ پیش آ جاتا ہے اور عورت کی لگائی ہوئی خوشبو مرد بھی سونگھتے ہیں تو کیا اس سے بھی عورت کو گناہ ہو گا؟
کیا عورت اپنے خاوند کے ساتھ باہر جاتے ہوئے خوشبو استعمال کر سکتی ہے؟
سوال: 102329
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورت کے خوشبو استعمال کرنے کی متعدد حالتیں ہیں اور ہر حالت کا الگ حکم ہے:
پہلی حالت: خاوند کے لئے استعمال کرے۔
تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ عمل مستحب ہے اور اس کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ کیونکہ یہ حسن معاشرت میں شامل ہے، نیز اس عمل سے میاں بیوی کے درمیان محبت بھی بڑھے گی، اور محبت مضبوط بھی ہو گی، اور یہ اسی وقت ہو گا جب میاں بیوی میں سے ہر کوئی دوسرے کی پسند کا خیال رکھے گا۔
مناوی رحمہ اللہ "فيض القدير" (3/190) میں لکھتے ہیں کہ:
"خاوند کے لئے خوشبو لگانا اور بناؤ سنگھار کرنا مطلوب بھی ہے اور پسندیدہ عمل بھی ہے، کسی بزرگ نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ: میاں بیوی کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے کا سب سے مضبوط ترین طریقہ یہ ہے کہ بیوی اپنے خاوند کے لئے بن سنور کر رہے اور خوشبو کا استعمال کرے، اس سے خاوند کبھی بھی بیوی سے متنفر نہیں ہو گا اور نہ ہی کبھی ناپسندیدگی کا اظہار کرے گا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھ دل کی کھڑکی ہوتی ہے، تو جب بھی آنکھ کسی منظر کو اچھا سمجھے تو اسے دل تک پہنچا دیتی ہے اور دل میں محبت پیدا ہو جاتی ہے، اور اگر آنکھ کوئی بھدا منظر دیکھے یا کوئی ناپسندیدہ لباس یا پوشاک دیکھے تو اسے بھی دل تک پہنچا دیتی ہے اور دل میں اس کے متعلق کراہت اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے، یہی وجہ تھی کہ عرب کی خواتین ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ: خبردار! تمہارے خاوند کی نظر تمہاری کسی ایسی حالت پر پڑے جو اسے اچھی نہ لگے یا تمہارے اندر سے بد بو محسوس کرے" ختم شد
دوسری حالت:
خوشبو لگا کر عورت گھر سے باہر ہی اسی نیت سے نکلے کہ اجنبی مردوں کو اس کی خوشبو آئے تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
جیسے کہ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ انہیں اس کی خوشبو آئے تو وہ ایسی ویسی ہے، آپ نے انتہائی سخت الفاظ بولے۔ مطلب کہ وہ زانیہ ہے) اس حدیث کو ابو داود: (4173) اور ترمذی: (2786) نے روایت کیا ہے اور ابن دقیق العید نے اسے "الاقتراح" (126) میں صحیح قرار دیا ہے ، اسی طرح شیخ البانی ؒ نے بھی اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
صاحب عون المعبود کہتے ہیں:
"حدیث کے عربی الفاظ: " لِيَجِدُوا رِيحهَا "کا مطلب یہ ہے کہ: مرد اس کی خوشبو سونگھیں۔" ختم شد
جبکہ "فيض القدير" (1/355) کے مؤلف مناویؒ کہتے ہیں کہ:
"حدیث کے الفاظ "وہ زانیہ ہے" کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو زنا میں ملوث ہونے کے درپے کر رہی ہے کیونکہ وہ زنا کے اسباب مہیا کر رہی ہے اور اسی قسم کے لوگوں کو دعوتِ گناہ بھی دے رہی ہے، اسی لیے اسے مجازی طور پر زانیہ کہا گیا ہے۔۔۔ تو ممکن ہے کہ شہوت برانگیختہ ہو جائے اور حقیقی طور پر زنا ہو جائے۔ یہاں پر عورت کا مردوں کے راستے میں بیٹھنے کا حکم بھی وہی ہے جو ان کے قریب سے گزرنے کاہے ۔" مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔
تیسری حالت:
عورت خوشبو اور عطر لگا کر گھر سے نکلے اور اس کا غالب گمان ہو کہ وہ لوگوں کے مجمعے کے پاس سے گزرے گی اور وہاں انہیں اس کی لگائی ہوئی خوشبو بھی آئے گی تو یہ عمل حرام ہے، چاہے اس عورت کا مقصد مردوں کو فتنے میں ڈالنا نہ ہو، یا اس کی نیت میں ایسی کوئی بات نہ ہو؛ کیونکہ یہ عمل ذاتی طور پر فتنہ ہے، شریعت میں ایسی نصوص موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل حرام بھی ہے اور منع بھی ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دیں: کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کیا کریں۔ مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبان پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یا اپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں ( کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں۔ یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں، یا ان بچوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے اور اپنے پاؤں ( زمین پر) نہ ماریں کہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں۔ اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو، اے مومنو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [النور: 31]
تو اس آیت میں عورت کو اپنی زینت اجنبی مردوں کے سامنے عیاں کرنے سے روکا ہے، اور خوشبو یقینی طور پر زینت میں شامل ہے اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے؛ اس لیے خوشبو کا اظہار بھی ممانعت اور حرمت میں شامل ہوگا۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو خوشبو مت لگائے) اس حدیث کو مسلم: (443) نے روایت کیا ہے۔
تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عورت کو مسجد آتے ہوئے خوشبو لگانے سے روک رہے ہیں ؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ مردوں کو اس عورت کی خوشبو آئے گی اس لیے مردوں اور عورتوں کے درمیان مسجد میں فاصلہ کم ہوتا تھا اور درمیان میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہوتی تھی۔ تو بازاروں اور لوگوں کے ازدحام والی جگہوں پر خوشبو لگا کر جانا تو بالاولی منع ہو گا؛ تاہم اس عمل کو کبیرہ گناہ شمار نہیں کیا جائے ، البتہ یہ عمل حرام ضرور ہو گا۔
چنانچہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ "الزواجر عن اقتراف الكبائر" (2/71-72) میں لکھتے ہیں :
"اس عمل کو جن احادیث میں کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے ان کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ جب کوئی فتنے میں ملوث ہو جائے، تاہم جب تک فتنے کا خدشہ ہو تو یہ عمل مکروہ ہو گا، یا فتنے میں ملوث ہونے کا قوی گمان ہو تو یہ عمل حرام ہو گا، کبیرہ گناہ پھر بھی نہیں ہو گا۔ یہی بات واضح محسوس ہوتی ہے" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (7850) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چوتھی حالت:
عورت خوشبو اور عطر وغیرہ لگائے اور اسے قوی گمان ہو کہ اس کی خوشبو لوگوں تک نہیں پہنچے گی، اور نہ ہی وہ لوگوں کے مجمع کے پاس سے گزرے گی ، وہ اس طرح کہ بیوی اپنے خاوند کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر کسی ویرانے والی جگہ پر جائے، یا اپنے اہل خانہ کو ملنے جائے، یا اپنے خاوند کی گاڑی میں عورتوں کے لئے مختص کسی کمپلیکس میں جائے، یا گاڑی میں سوار ہو کر مسجد کے اس دروازے پر اترے جو عورتوں کے لئے مختص ہے اور مردوں سے بالکل الگ اور دور ہے، اور پھر عورت گلی راستوں میں پھرنے کی بجائے فوری گاڑی میں واپس آ جائے ، یا اسی طرح کے دیگر حالات جن میں عورت کو توقع ہی نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کے راستے میں سے گزرے گی ، اور خوشبو لگانے کا مقصد بھی محض صفائی ستھرائی ہو جیسے کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ہے تو ان حالات میں خوشبو استعمال کرنے پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ان حالات میں حرمت کی علت نہیں پائی جاتی اور وہ یہ ہے کہ مردوں کو عورت کی لگائی ہوئی خوشبو پہنچے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ:
- سابقہ دلائل میں مذکور حرمت کی علت ان حالات میں موجود نہیں ہے، چنانچہ ان حالات میں نہ تو کوئی فتنہ ہے اور نہ ہی ان سے کسی کی شہوت برانگیختہ ہونے کا خدشہ ۔
- احادیث مبارکہ میں ایسی باتیں موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کی بیویاں ایسے حالات میں خوشبو استعمال کرتی تھیں جہاں انہیں یہ گمان ہوتا تھا کہ ان کی خوشبو مردوں تک نہیں پہنچے گی، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مکہ جاتیں تو ہم احرام سے پہلے اپنی پیشانیوں پر خوشبو دار مرکب کا لیپ کر لیا کرتی تھیں، تو جب ہمیں پسینہ آتا تو وہ چہرے پر بہہ پڑتا ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسے دیکھتے اور ہمیں منع نہ فرماتے۔)
اس حدیث کو ابو داود: (1830) نے روایت کیا ہے اور نووی نے اسے "المجموع" (7/219) میں حسن قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہ بات اُس زمانے میں موجود عرف پر محمول ہوگی کہ عورتوں کے قافلے مردوں سے بالکل الگ تھلگ ہوتے تھے، یا پھر عورت اپنے پالان میں ہی رہتی تھی اس کا مردوں سے میل ملاپ نہیں ہوتا تھا، نہ ہی عورت مردوں کے جھرمٹ کے قریب جاتی تھی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (10/40) میں کہتے ہیں:
"عورت کے لئے اس وقت خوشبو لگانا جائز ہے جب وہ خواتین کے لئے مختص کمپلیکس میں جائے اور راستے میں مردوں کے قریب سے نہ گزرے۔" ختم شد
اسی طرح مجالس رمضان: (سن: 1415/ پانچویں مجلس/خاندانی امور سے متعلقہ سوالات) میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر عورت گاڑی میں سوار ہو جائے گی اور اس کی خوشبو اسی کو آئے گی جس کے لئے عورت کی خوشبو سونگھنا جائز ہے ، اور پھر گاڑی سے اتر کر فوری اپنی ملازمت کی جگہ پر آ جائے گی اور عورت کے آس پاس مرد نہیں ہوں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے؛ کیونکہ گاڑی میں وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ اپنے گھر میں ہے، لیکن اگر عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے گی تو پھر عورت کے لئے خوشبو لگانا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
اب اگر اچانک بیماری یا حادثے وغیرہ کی وجہ سے ناگہانی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد اسے اسپتال پہنچاتے ہیں اور اسی دوران کچھ لوگ عورت کی لگائی ہوئی خوشبو سونگھ لیتے ہیں تو یہ ان شاء اللہ معاف ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اتنا ہی مکلف بناتا ہے جتنی اس میں استطاعت ہوتی ہے، اور ویسے بھی شرعی حکم کا اختیاری حالات میں پابند ہوتا ہے، مجبوری کی حالت میں قدرے نرمی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب