میرے والد نے میرے لیے ایک سودی بینک کے بچت کھاتے میں رقم جمع کروائی تھی، اور میں نے یہ کھاتہ 21 سال تک اپنے پاس رکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس رقم میں سود شامل ہوا ہے یا نہیں؟ اور میں نے تصدیق کی ہے کہ میرے والد اور والدہ نے میرے لیے کچھ عرصہ پہلے بھی رقم جمع کروائی تھی، تو اس سے یہ ہوا کہ سودی مشکوک رقم کی مقدار مزید کم ہو گئی ہے۔ اب میں نے اس سودی بینک میں اپنا کھاتہ ختم کر وا دیا ہے، لیکن میں یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ اس کھاتے میں حرام رقم کی مقدار کتنی ہے، چاہے یہ کھاتہ میرے پاس موجود بھی ہوتا تو میرے لیے سودی رقم کو الگ کرنا ممکن نہیں تھا، تو ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بینک میں جمع کروائی گئی رقم درحقیقت قرض ہوتی ہے، چاہے وہ بچت کھاتے ہی کیوں نہ جمع کروائی گئی ہو۔ اس پر جو سود دیا جاتا ہے، وہ حرام سود ہے جس کی حرمت کے بارے میں نصوص موجود ہیں، اور اسے کھانے والے کے لیے سخت وعید آئی ہے۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے تحت اسلامی فقہ اکادمی کے 1406ھ میں جدہ میں ہونے والے اجلاس کی قرار دادوں میں درج ہے:
"سودی منافع کے ذریعے حاصل ہونے والی ہر رقم شرعاً حرام ہے۔ رقم جمع کروانے والے مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے اپنے لیے یا اپنے اہل خانہ کے لیے کسی بھی کام میں استعمال کرے۔ اسے مسلمانوں کے عمومی رفاہ عامہ جیسے اسکول، ہسپتال وغیرہ میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ یہ خرچ بطور صدقہ نہیں ہو گا بلکہ حرام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔"
(دیکھیں: "مجلة المجمع" 9/1/667)
اس بنا پر، آپ پر لازم ہے کہ جتنا ہو سکے، سودی رقم کا تعین کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے بینک کے نظام اور سود کی اضافی رقم کے طریقہ کار کو دیکھیں، اور اپنے والدین سے پرانے اور نئے ڈپازٹ کروائے گئے پیسوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اگر آپ سودی رقم کی صحیح مقدار معلوم کر لیں، تو آپ پر واجب ہے کہ اسے مسلمانوں کے لیے رفاہِ عامہ کے کاموں میں خرچ کریں۔ اگر صحیح مقدار معلوم نہ ہو سکے، تو پھر غالب گمان کے مطابق رقم کا تعین کریں، اور اس سلسلے میں اپنے والدین سے مشورہ کریں۔
واللہ اعلم