قرآن مجید پڑھتے ہوۓ کئ بار کلمۃ ” امۃ ” گزرا اور مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ایک نہیں کئ ایک معانی ہیں ، کیا یہ صحیح ہے اوراس کلمہ کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہيں ؟
قرآن مجید میں کلمۃ ” امۃ ” کا معنی
سوال: 10251
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شیخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :
قرآن مجید میں کلمہ ” امۃ ” کا استعمال چارطرح ہوا ہے :
اول :
وقت میں سے تھوڑي مدت کے لیے استعمال ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے : ولئن اخرنا عنھم العذاب الی امۃ معدودۃ اوراگر ہم ان سے تھوڑي مدت کے لیے عذاب مؤخر کردیں ۔
اور ایسے ہی اس فرمان باری تعالی میں :
وقال الذی نجا منھما وادکر بعد امۃ اوران دوقیدیوں میں سے جورہا ہوا تھا اسے مدت کے بعد یاد آگیا اور کہنے لگا ۔
دوم :
لوگوں کی ایک جماعت کے لیے استعمال ۔
غالب طور پراسی معنی میں زيادہ استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
ووجد علیہ امۃ من الناس یسقون اور وہاں پر لوگوں میں سے کچھ کو پانی پلاتے ہوۓ پایا ۔
اوراللہ رب العزت کا فرمان ہے :
ولکل امۃ رسول اورہر امت کے لیے رسول ہے
اور فرمان ربانی ہے : کان الناس امۃ واحدۃ لوگ ایک ہی جماعت تھے ، اس کے علاوہ اور بھی کئ آیات ہیں ۔
سوم :
اس شخص کے بارہ میں استعمال ہوا ہے جس کی اتباع کی جاۓ ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ان ابراھیم کان امۃ بیشک ابراھیم علیہ السلام ایک امت تھے ۔
چہارم :
شریعت اور طریقہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
انا وجدنا آباءنا علی امۃ بیشک ہم نے اپنے آباءواجداد کو ایک طریقے پرپایا ، اور اللہ جل شانہ نے فرمایا :
ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ بیشک یہ تمہارا طریقہ ایک ہی ہے ۔
اس کے علاوہ اوربھی کئ ایک آیات ہیں ۔ .
ماخذ:
اضواء البیان للشنقیطی (3/13)