كيا ميں جنسى طور پر عاجز شخص سے شادى كر سكتى ہوں ؟
كيا شرعاً ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں، كيونكہ ميں اس سے محبت كرتى اور اسے اپنا شريك حيات بنانا چاہتى ہوں ؟
جنسى طور پر عاجز شخص سے شادى كرنے كا حكم`
سوال: 102553
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورت كے ليے جنسى طور پر عاجز شخص سے شادى كرنا جائز ہے؛ كيونكہ جماع بيوى كا حق ہے اور اس نے يہ حق ساقط كر ديا ہے، اور جب وہ ايسا كر لے يعنى اپنا حق ساقط كر لے تو پھر نكاح كے بعد اسے اس كے مطالبے كا حق حاصل نہيں رہتا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ بيوى كے ليے فسخ نكاح كا حق ثابت ہونے والے عيوب بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
اور ان عيوب ميں يہى بھى شامل ہے كہ اگر خاوند جماع كرنے سے عاجز ہو . ان كا كہنا ہے كہ: ان عيوب سے اختيار ثابت ہونے كے ليے شرط يہ ہے كہ عقد نكاح كے وقت اس عيب كا علم نہ ہو، اور نہ ہى عقد نكاح كے بعد اس عيب پر راضى ہو، اور اگر عقد نكاح ميں يا بعد ميں اسے اس عيب كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو جائے تو اسے كوئى اختيار نہيں، ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 142 ).
اور المدونۃ ميں درج ہے:
" ميں كہتا ہوں: يہ بتائيں كہ اگر عورت ايسے شخص سے شادى كر لے جس كا عضو تناسل كٹا ہوا ہو، يا وہ خصى ہو اور عورت اس كا علم بھى ركھتى ہو ؟
تو ان كا كہنا تھا: اس عورت كو كوئى اختيار نہيں ہوگا، امام مالك كا يہى كہنا ہے.
وہ كہتے ہيں: امام مالك رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اگر عورت نے خصى مرد سے شادى كر لى اور اسے علم نہ تھا تو عورت كو جب علم ہو اسى وقت اسے اختيار حاصل ہے "
ديكھيں: المدونۃ ( 2 / 144 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 69 ) كا بھى مطالعہ كريں.
ہم نے جو نكاح كے جواز كا ذكر كيا ہے اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ آپ كے ليے افضل اور بہتر يہى ہے كہ آپ اس حالت ميں اس شخص سے شادى مت كريں، كيونكہ جماع اور پھر اس كے نتيجہ ميں اولاد كا ہونا ايك فطرى امر ہے جس كى مرد اور عورت دونوں كو ضرورت ہوتى ہے.
اور اب تو آپ اپنا يہ حق ختم كر رہى ہيں، ليكن آپ كو كيا علم كہ ايك يا دو برس بعد كيا ہو اور آپ اس كى خواہش كرنے لگيں، كيونكہ نكاح تو مستقل طور پر ہوتا ہے، كوئى كھيل نہيں.
اس ليے امام احمد رحمہ اللہ عورت كے ولى كے بارہ ميں كہا كرتے تھے:
مجھے يہ پسند نہيں كہ عورت كا ولى اس كى شادى كسى ايسے شخص سے كر دے جو جماع كرنے سے عاجز ہو، اور اگر وہ عورت اس وقت راضى بھى ہو گئى تو رخصتى اور دخول كے وقت اسے ناپسند كريگى؛ كيونہ عورتوں كى حالت جماع وغيرہ كرنا ہے، اور انہيں بھى وہى كچھ اچھا لگتا ہے جو ہم مردوں كو اچھا لگتا اور پسند ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ اس پر تعليق لگاتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ اس ليے كہ اس ميں ہميشہ كا نقصان ہے، اور اس كى ہميشگى پر رضامندى موثوق نہيں…. اور ہو سكتا ہے يہ عدوات و اختلاف كا سبب بن جائے "
ديكھيں: المغنى ( 10 / 67 ).
اور پھر آپ پر يہ مخفى نہيں كہ يہ شخص آپ كے ليے ا جنبى اور غير محرم ہے، اس ليے جب تك آپ كا اس سے نكاح نہ ہو جائے آپ كے ليے اس كے ساتھ كسى بھى قسم كا تعلق ركھنا جائز نہيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق نصيب كرے اور آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب