جو شخص اذان بلكہ اقامت بھى سنے اور نماز كے نہ جائے اس كے متعلق كيا حكم ہے ؟
اور صرف نماز جمعہ ادا كرنے والے شخص كا حكم كيا ہے ؟
اذان سنائى ديتى ہے ليكن نماز ادا كرنے نہيں جاتا
سوال: 10292
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جو شخص اذان سن كر نماز كے مسجد نہيں جاتا اس كى كوئى نماز نہيں ليكن اگر وہ معذور ہو، مقصد يہ ہے كہ اس كى نماز ناقص ہے، اور وہ نماز باجماعت سے پيچھے رہنے كى بنا پر گنہگار ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
” اس سے تو منافق شخص ہى پيچھے رہتا ہے، جس كا نفاق معلوم ہو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).
اور مؤذن كا جواب نہ دينا ضعف ايمان اور نقص دين كى نشانى اور اجر ميں كمى اور اللہ تعالى كے گھر مساجد كو ترك كرنے كى علامت ہے.
اور جو شخص صرف نماز جمعہ ہى ادا كرتا ہے اس كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ:
صرف نماز جمعہ ادا كرنے والا شخص كافر ہے، كيونكہ وہ كليتا تارك نماز كے حكم ميں آتا ہے، اس ليے كہ وہ ہفتہ ميں پينتيس نمازوں ميں سے صرف ايك نماز ادا كر رہا ہے، تو وہ بالكل نماز ترك كرنے والے جيسا ہى ہوا.
اس كے قائل شيخ ابن باز، شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ ہيں.
اور كچھ علماء كرام اسے كافر نہيں كہتے ليكن وہ عظيم جرم كا مرتكب ٹھراتے ہيں، جو زنا، سود، چورى، اور شراب نوشى سے بھى زيادہ سخت ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد