ميں سات برس سے شادى شدہ ہوں اور ميرا ايك بچہ مريض ہے، اس بچے كى بنا پر ميرا خاوند مجھے ناپسند كرتا اور ہر وقت مذمت كرتا رہتا ہے، اور اللہ اور رسول پر سب و شتم كرتا ہے، اس سبب كى بنا پر مجھے دو بار طلاق بھى ہو چكى ہے ميں اپنے بچے كے باعث تيسرى طلاق نہيں چاہتى.
ميرا ايك بچہ اپاہج اور معذور ہے، اور مير گھر والے بھى مجھ كو بوجھ سمجھتے ہيں، يہ علم ميں رہے كہ كچھ لوگوں نے اسے سمجھايا كہ يہ سب و شتم دين اسلام سے مرتد ہونے كا باعث بنتا ہے، اور پھر وہ نماز پنجگانہ پابندى كے ساتھ ادا كرتا ہے، ليكن اس كا مزاج تعصب والا ہے، لہذا وہ اللہ اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرتا ہے، مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنى اولاد نہيں چھوڑ سكتى، اور جب ميں نے اپنے والد كے ساتھ رہنے كى كوشش كى تو اولاد كى بنا پر انہوں نے اپنے ساتھ ركھنے سے انكار كر ديا، ميں بہت پريشان ہوں مجھے كوئى حل بتائيں.
وہ كچھ مدت تو نماز ادا كرتا ہے اور كچھ عرصہ نماز ادا نہيں كرتا، ہم نے اسے بہت سمجھايا ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، مجھے كيا كرنا چاہيے كيا ميرا اس كے ساتھ رہنا جائز ہے، اور ميرا حكم كيا ہے ؟
اور كيا مجھے اس سے طلاق ہو چكى ہے، اور كيا ميں اس كے ساتھ اس كے گھر ميں رہ سكتى ہوں، برائے مہربانى مجھے اس حالت كے متعلق ہر چيز بتائيں.
اللہ اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنے والے خاوند كے ساتھ رہنا
سوال: 103082
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا كفر اور دين اسلام سے ارتداد كا باعث ہے، مسلمانوں كا اجماع ہے كہ ايسا كرنے والا شخص قتل كا مستحق ہے، اور ايسے شخص كى نہ تو نماز جنازہ ادا كى جائيگى اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا.
رہا مسئلہ ارتداد كا نكاح پر اثرانداز ہونے كا تو اس كے متعلق عرض ہے كہ: مرتد شخص كى بيوى خاوند كے مرتد ہونے كے وقت سے ہى عدت شروع كر دےگى، اگر تو وہ عدت ختم ہونے سے قبل دين اسلام ميں واپس آ جاتا ہے تو ان كے مابين نكاح باقى رہےگا، اور عورت اس كى بيوى رہےگى.
ليكن اگر عدت ختم ہونے كے بعد دين اسلام ميں واپس آتا ہے تو پھر معاملہ عورت كے ہاتھ ميں ہے اگر وہ چاہے تو پہلے نكاح سے ہى واپس آ سكتى ہے، اور تجديد نكاح كى ضرورت نہيں يہ اسے حق حاصل ہے.
اور اگر چاہے تو وہ اس كے پاس واپس نہ جائے تو يہ بھى اسے حق حاصل ہے، اور خاوند كے مرتد ہونے كے وقت سے ہى اس كا نكاح فسخ ہو جائيگا، اور طلاق لينے كى كوئى ضرورت نہيں، بلكہ اگر طلاق نہ بھى دے تو نكاح فسخ ہو جائيگا.
يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ اگر خاوند مرتد ہو جائے تو بيوى كے ليے جائز نہيں كہ وہ خاوند كو اپنے قريب آنے دے حتى كہ وہ توبہ كر كے دين اسلام ميں واپس آ جائے.
اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر (21690 ) اور (89722 ) كے جوابات ميں ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
ہمارى رائے كہ ـ جيسا كہ آپ كہتى ہيں ـ جب آپ كا خاوند نماز كا پابند ہے، يا بعض اوقات نماز ادا كرتا ہے، تو اس ميں خير و بھلائى اور دين كى محبت پائى جاتى ہے، ليكن اسے ايمان قوى كرنے كى ضرورت ہے، اس ميں آپ اس كى معاونت كريں، اور اس كا ہاتھ پكڑيں، اس كے ليے وسائل يہ ہيں:
جب وہ گھر ميں ہو تو اس موقع كو غنيمت جانتے ہوئے كوئى اسلامى چينل لگا ديا كريں ہو سكتا ہے وہ كوئى ايسى بات سن لے جو اس كى ہدايت و استقامت كا سبب بن جائے.
اور آپ ہر اس كام سے اجتناب كريں جو اس كے ليے غضب كا باعث بنے اور اسے نارمل پن سے نكال دے، ہو سكتا ہے آپ ہى اس كے ليے اس عظيم برائى كا سبب ہوں.
اگر آپ اس كے ساتھ ہر قسم كى كوشش كر بيٹھيں اور اس كا كوئى فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے اس عمل پر مصر رہے جو كر رہا ہے تو پھر اس كے ساتھ رہنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، اور آپ كے والد كو اپنا فرض ادا كرنا چاہيے، وہ آپ اور آپ كے بچے كا خرچ برداشت كرے، اور اس كے ليے آپ كى ذمہ دارى سے دست بردار ہونا جائز نہيں.
اگر آپ كا والد اپنا فرض ادا كرنے سے انكار كرے تو ہم آپ كو صبر و تحمل كى وصيت كرتے ہيں كہ صبر كرتے ہوئے آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد طلب كريں حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے ليے كوئى نكلنے كى راہ بنا دے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے گمان نہيں ہوتا الطلاق ( 2 – 3 ).
ہم اللہ تعالى سے سلامى و عافيت اور بخشش كے طلبگار ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات