کسی دوسرے کی ملکیت والی چيز کوغصب کرنے کا حکم کیا ہے ؟
غصب کے احکام کا بیان
سوال: 10323
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
غصب کی لغوی تعریف :
کسی چيز کوظلم وزیادتی سے لینا ۔
فقھاء کی اصطلاح میں غصب کی تعریف :
کسی کے حق پر زبردستی اورناحق قبضہ کرنے کوغصب کہا جاتا ہے ۔
غصب کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورتم آپس میں اپنے مالوں کوباطل طریقوں سے نہ کھاؤ ۔
اورغصب باطل طریقے سے مال کھانے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔
اورپھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے :
( یقینا تمہارے خون اورتہمارے مال ودولت اورتمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں ) ۔
اوردوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی مسلمان کا مال اس کی اجازت اوررضامندی کےبغیر حلال نہیں )
اورغصب کی گئي چيز یاتو جائداد ہوگی یا پھر منتقل ہونے والی چيز اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( جس کسی نے بھی ایک بالشت زمین ظلم زیادتی سے حاصل کی اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جاۓ گا ) ۔
غاصب پرضروری اورلازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اور غصب کی ہوئ چیز کو اس کےمالک کوواپس لوٹاۓ اوراس سے معافی و درگزر طلب کرے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی کی طرف راہنمائ کی ہے ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس نے بھی اپنے کسی بھائ پر ظلم وزیادتی کی ہے اسے آج ہی اس کا کفارہ ادا کردے قبل اس کے کہ اس کے پاس درھم ودینا نہ ہوں ( یعنی قیامت کے دن ) اگر اس کی نیکیاں ہوں گی تووہ مظلوم کو دی جائيں گي اوراگرنیکیاں نہ ہوئيں تو مظلوم کے گناہ لے کے اس کے پر ڈال دیۓ جائيں گے اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا ) او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اگر غصب کردہ چيز اس کے پاس موجود ہے تو وہ اسی طرح اس کومالک تک پہنچا دے اوراگر ضائع ہوچکی ہے تواس کا بدلہ دینا چاہیے ۔
امام مؤفق رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
( علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر غصب شدہ چيز اپنی حالت میں موجود ہے اوراس میں کوئ تبدیلی نہیں ہوئ تواس کا واپس کرنا واجب ہے ) انتہی ۔
اوراسی طرح غصب شدہ چيز کی زیادتی بھی واپس کرنی لازم ہے چاہے وہ زیادہ شدہ اس کے ساتھ متصل ہویا منفصل ، اس لیے کہ وہ غصب شدہ چيز کی پیداوار ہے اوروہ بھی اصلی مالک کی ہوگي ۔
اوراگر غاصب نے غصب کردہ زمین میں کوئ عمارت تعمیر کرلی یا پھر اس میں کوئ چيز کاشت کرلی تومالک کے مطالبہ پر اس اکھیڑنا ضروری ہے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ظالم کے پیسنے کا کوئ حق نہیں ) سنن ترمذي وغیرہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔
اوراگر اس چيز کےمنھدم کرنے یا اکھيڑنے سے زمین کونقصان ہوتوغاصب پر اس نقصان کا بھی جرمانہ ہوگا اوراسی طرح اسے کاشت کے آثار بھی ختم کرنے لازم ہیں تا کہ زمین کے مالک کو زمین صحیح سالم واپس ہوسکے ۔
اوراسی طرح غاصب کے ذمہ غصب کےوقت سے لیکر مالک کوواپس کرنے تک کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوگا یعنی اس کراۓ کی مثل ادا کرے گا ، اس لیے کہ اس نے زمین کےمالک کواس مدت میں نفع حاصل کرنے سے ناحق روک رکھا تھا ۔
اوراگر کسی نے چيز غصب کرکے روکے رکھی تو اس کی قیمت میں کمی واقع ہوگئي توصحیح یہ ہے کہ وہ اس نقص کا ذمہ دار ہوگا ۔
اوراگر غصب کردہ چيز کسی ایسی چیز میں مل گئي جس میں تمیيز کرنا ممکن ہو مثلا گندم جومیں مل جاۓ ، توغاصب اسے علیحدہ کرکے واپس کرنے گا ۔
اوراگر ایسی چيز میں مل جاۓ جس کی تمیز کرنی مشکل ہو مثلا گندم گندم میں ہی مل جاۓ توغاصب اسی طرح کی گندم اوراتنی غیرملاوٹ شدہ واپس کرے گا ۔
اوراگر وہ اسی طرح کی چيز میں یا پھر اس سے بھی بہتر اوراچھی قسم میں یا پھر کسی اورجنس میں مل جاۓ جس کی تمیز کرنا مشکل ہو تو اس ملی ہوئ کوفروخت کر کے دونوں کو ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جاۓ گی ۔
اوراگر اس صورت میں جس کی چيز غصب کی گئي ہواسےقیمت کم ملے توغاصب باقی نقصان کا ذمہ دار ہوگا ۔
اوراس باب میں یہ قول بھی ذکرکیا ہے :
اورغاصب کے ہاتھوں سے جس جس کے پاس بھی غصب کی ہوئ چيز جاۓ گی وہ سب ضامن ہوں گے ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ جن کی طرف بھی غصب شدہ چیز منتقل ہوگي اگروہ ضائع ہوجاۓ تووہ سب اس کا نقصان پورا کریں گے ۔
اوریہ سب دس قسم کے ہاتھ شمار ہوتے ہیں :
خریدار اورجو اس کے معنی میں ہو ، اجرت پر حاصل کرنے والے کے ہاتھ ، بغیر عوض کے قبضہ کرنے والےکا ہاتھ مثلا چھین لینے والا ، مصلحت دافعہ کی بناپر قبضہ کرنے والا جیسا کہ وکیل ہے ، عاریتا لینے والا ، غصب کرنے والا ، مال میں تصرف کرنے والا ، مثلا مضاربت پرشراکت کرنے والا ، غصب شدہ عورت کی شادی کرنے والا ، بغیر فروخت کے عوض میں قبضہ کرنے والے کے ہاتھ ، غاصب کی نیابت کرتے ہوۓ غصب شدہ چيز کوضائع کرنے والا ۔
توان سب صورتوں میں جب دوسرے کوحقیقت حال کا علم ہوجاۓ کہ اسے دی جانے والی چيز غصب شدہ ہے تواس پراس چيز میں زيادتی کی بنا پر ضمان ہوگی اس لیے کہ اسے علم تھا کہ مالک کی جانب سے اس میں تصرف کی اجازت نہيں ہے ۔
اوراگر اسے حقیقت حال کا علم نہیں توپھر پہلے غاصب پر ہی ضمانت ہوگي اورنقصان وہی ادا کرے گا ۔
اوراگر کوئ ایسی چيز غصب کرلی جاۓ جوعادتا کرایہ پرلی جاتی ہے توغاصب مالک کواتنی مدت کا کرایہ بھی لازمی ادا کرے گا اس لیے کہ نفع بھی ایک قیمتی مال ہے لھذا اصلی چيز کی طرح منافع کی بھی ضمان ہوگی ۔
غاصب کے جتنے بھی حکمی تصرفات ہیں وہ سب کے سب باطل ہيں اس لیے کہ وہ سب مالک کی اجازت کے بغیر ہیں ۔
اور اگر کوئ چیز غصب کرلی اوراس کے مالک کا علم نہ رہا اوراسے واپس کرنا بھی ممکن نہ ہوسکے تو وہ حاکم کے سپرد کردی جاۓ جو اسے صحیح جگہ پراستعمال کرے گا اوریا پھر اس کے مالک کی جانب سے صدقہ کردی جاۓ اوراگر اسے صدقہ کیا جاۓ تو اس کا اجرو ثواب مالک کوہو گا نہ کہ غاصب کواورغاصب اس سے خلاصی حاصل کرلے گا ۔
غصب یہی نہیں کہ کسی چيز پرطاقت کے بل بوتے قبضہ کرلیا جاۓ بلکہ یہ بھی غصب میں ہی شامل ہے کہ کسی باطل طریقے اورجھوٹی اورفاجرہ قسم کے ذریعہ سے کسی چيز پر قبضہ کرلیا جاۓ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورایک دوسرے کا مال ناحق و باطل طریقے سے نہ کھایا کرو ، اورنہ ہی حاکموں کو رشوت پہنچا کرکسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کرلیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو البقرۃ ( 188 ) ۔
لھذا یہ معاملہ بہت ہی سخت ہے اورحساب وکتاب بھی بہت مشکل ہے توفکرکریں ۔
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( جس نے بھی ایک بالشت زمین غصب کی تواسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جاۓ گا ) ۔
اورایک دوسری حديث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( میں نے جس کے لیے بھی اس کے بھائ کے حق میں سے فیصلہ کردیا تواسے وہ نہیں لینا چاہیے ، بلکہ میں تو اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ) ۔ .
ماخذ:
دیکھیں : الملخص الفقھی تالیف : شیخ صالح الفوزان ص ( 130 ) ۔