تصاوير كے متعلق ميرا ايك سوال ہے كہ: آيا ويڈيو اور كمپيوٹر كى سكرين پر آنے والى تصوير مباح ہے، كيا آپ ہمارے ليے دلائل كے ساتھ اس كى وضاحت كر سكتے ہيں ؟
ٹيلى ويژن اور سينما اور ويڈيو والى تصاوير
سوال: 10326
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى چيز پر حكم اس كے تصور سے فرع ہے، اور مذكورہ تصوير كى كيفيت اور طريقہ معلوم كرنا ضرورى ہے.
" احكام التصوير " كے مؤلف لكھتے ہيں:
1 – سينمائى تصوير يا سينمائى فلم كى تصوير:
يہ وہ متحرك تصوير ہے جو آواز كے ساتھ ايك محدود وقت منتقل كرتى ہے، اور جو بھى اس فترہ اور وقت ميں حادثات واقعات ہوتے ہيں انہيں منتقل كرتى ہے، اور يہ تصوير جو سكرين پر ظاہر ہوتى ہے يہ اس چيز كا خيال ہے، اسے مذكورہ ريل يعنى فلم كے پٹے پر ثابت كرنے كے بعد اس كى كوئى حقيقت نہيں ہوتى.
كتاب: " الشريعۃ الاسلاميۃ و الفنون " ميں لكھا ہے: سينما كو خياليہ كا نام ديا گيا ہے، كيونكہ يہ اشياء كے خيالات پيش كرتا ہے، حقيقت نہيں.
2 – ٹيلى ويژن والى تصوير:
يہ وہ تصوير ہے جو تصوير اور آواز ايك ہى وقت ميں اليكٹرانك طريقہ سے نقل كى جاتى ہے، اور جس چيز كى تصوير مراد ہے يہ طريقہ اس كے جسم سے روشنى منعكس كر كے ميگا كى تختى پر منتقل كرتى ہے، اور يہ روشنى كے حساس مادہ سے بنے ہوئےكئى ايك بہت دقيق ذرات سے ڈھكى ہوتى ہے، جو چاندى اور سيزيم كے تيزاب سے بنتے ہيں اور ايك دوسرے سے عليحدہ اور اليكٹرك معزول ہوتے ہيں.
آلات كے ذريعہ اس قسم كى تصوير اگرچہ يہ بالكل سينمائى فلم اور پٹے كے مشابہ ہوتى ہے، ليكن ٹيلى ويژن كى تصوير اليكٹرك اشارات ميں تحويل ہو كر پھر مقناطيسى شعاعوں ميں تبديل ہو جاتى ہے، جو آلات كے ذريعہ يا تو ايك مقررہ مسافت تك ڈائريكٹ فضا ميں بھيجى جاتى ہے اور ٹى وى ميں موجود آلات اسے كيچ كرتے ہيں.
اور يا پھر اسے ايك مشين اور آلہ ميں بھيجا جاتا ہے جو ان شعاعوں كو مقناطيسى تغيرات كى شكل ميں ايك پلاسٹك كى ريل جس پر مقناطيسى مادہ لگا ہوتا ہے ميں جمع ہو جاتى ہيں، اور اس پلاسٹك كى مذكورہ ريل ميں جو كچھ ريكارڈ كيا گيا ہے اسے سكرين پر پيش كرنے كے ليے اس پر ايك حساس سا ہيڈ پھيرا جاتا ہے جس سے يہ شعاعيں دوبارہ اليكٹرونك بن جاتى ہيں اور پھر انہيں اليكٹرك اشاروں كے ذريعہ تصوير كى شكل ميں ظاہر ہونے كے ليے سكرين پر بھيج ديا جاتا ہے، ليكن معقدہ عمل كے بعد.
تو ٹى وى وہ آلہ ہے جو ان اليكٹرك شعاعوں كو قبول كر كے جمع كرتا اور پھر اس پورى اور كامل شكل كى صورت ميں سكرين پر پيش كرتا ہے.
اور اس كى ايك اور قسم بھى پائى جاتى ہے جو اس تصوير كا جزء اور حصہ شمار كيا جا سكتا ہے، وہ يہ كہ بعض ترقى يافتہ ملكوں ميں ايسے ٹيلى فون پائے جاتے ہيں جو بات كرنے والے كى آواز اور تصوير دونوں نقل كرتے ہيں، اور بات چيت كرنے والے دونوں ايك دوسرے كى آواز بھى سنتے ہيں اور تصوير بھى ديكھتے ہيں.
اس آلے كى طرح جو دروازے پر لگايا جاتا ہے جو آنے والے كى آواز اور تصوير دونوں گھر كے اندر لگى سكرين پر پيش كرتا ہے، اور گھر والا اسے پورى طرح سن ليتا ہے، اور اسى طرح بنكوں اور تجارتى ماركيٹوں ميں بھى چورو اور مجرموں كى نگرانى كے ليے اسى طرح كے آلات استعمال كيے جاتے ہيں.
تو يہ ايك ہى طرح كے آلات كئى قسم كى مختلف اغراض كے ليے استعمال كيے جاتے ہيں، كہ كيمرہ اس جگہ پر تسلط قائم كر كے اس كى تصوير ٹى جيسى سكرين پر پيش كرتا ہے، تو پورى وضاحت كے ساتھ اس كى تصوير وہاں آ جاتى ہے، اور ہر دن ايك نئى چيز سامنے آ رہى ہے، ہم نہيں جانتے كہ مستقبل ميں كيا نئى چيز ظاہر ہو، اور يہ اگر ايك چيز پر دلالت كرتا ہے تو متحرك اور ساكن تصوير كے كئى ايك طريقوں اور اغراض ميں استخدام پر يہ ايك بہت حيران اور پريشان كن وسعت ہے، مثال كے طور پر صنعتى اور حربى اور امن و عامہ اور تعليمى اور ميڈيكل اور معاشرتى وغيرہ كے ليے.
ديكھيں: احكام التصوير تاليف على واصل ( 65 – 67 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جديد قسم كے طريقوں پر تصوير كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
نہ تو اس كا منظر اور نہ ہى مشہد اور نہ ہى مظہر ہو، جيسا كہ مجھے ويڈيو كيسٹ كى تصوير كے متعلق بتايا گيا ہے، تو مطلقا اس كا كوئى حكم نہيں، اور نہ ہى مطلقا يہ حرمت ميں شامل ہوتى ہے، اسى ليے علماء كرام جو كاغذ پر كيمرہ كى تصوير ممنوع قرار ديتے ہيں انہوں نے كہا ہے:
يقينا اس ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ يہ كہا گيا ہے: كيا مسجد ميں ديے جانے والے درس اور ليكچر كى تصوير بنانى جائز ہے ؟
تو اسے ترك كرنے كى ہى رائے تھى، كيونكہ ہو سكتا ہے نمازيوں پر يہ تشويش كا باعث ہو، اور ہو سكتا ہے منظر لائق نہ ہو.
دوسرى قسم:
كاغذ پر چھاپى جانے والى ثابت تصوير:
ليكن يہ ديكھنا باقى ہے كہ جب انسان يہ مباح تصوير بنانا چاہے تو اس ميں مقصد كے اعتبار سے پانچ احكام جارى ہونگے:
اس ليے جب اس كا مقصد حرام چيز ہو تو يہ حرام ہے.
اور اگر اس سے واجب مقصد ليا گيا ہو تو يہ واجب ہے.
تو بعض اوقات تصوير واجب ہوتى ہے اور خاص كر متحرك تصوير، مثلا جب ہم ديكھيں كہ كوئى انسان جرائم ميں سے كسى ايسے جرم كا ارتكاب كر رہا ہے جو كہ حقوق العباد سے تعلق ركھتا ہو مثلا وہ قتل كر دے، يا اس طرح كا كوئى اور جرم، اور ہم تصوير كے بغير اس جرم كوثابت نہيں كر سكتے، تو پھر اس وقت تصوير واجب ہو گى.
خاص كر ان مسائل ميں جو اس قضيہ اور معاملہ كو مكمل طور پر مضبوط كرے، كيونكہ وسائل كو احكام مقاصد حاصل ہيں، جب ہم كسى انسان كى شخصيت كے ثبوت كے ليے اس خوف سے تصوير بنائينگے كہ كہيں اس جرم ميں كوئى اور نہ پھنس جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ چيز مطلوب ہے، اور جب ہم صرف كھيل اور تمتع كے ليے تصوير بنائينگے تو يہ بلاشك و شبہ حرام ہے.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 197 – 199 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد