0 / 0

كيا مرد سر كے بال لمبے كر سكتا ہے ؟

سوال: 103419

كيا مرد كے ليے لمبےبال ركھنے جائز ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مرد كے ليے لمبے بال ركھنا جائز ہيں، ليكن اسے ان كى ديكھ بھال اور خيال كرنا ہوگا، تا كہ وہ قبيح المنظر نہ ہوں، بلكہ اچھا منظر پيش كريں، انہيں كنگھى كرے، اور تيل لگائے، ليكن ان كا خيال ركھنے ميں مبالغہ اور اسراف سے كام نہ لے.

اس كى دليل ابو داود اور نسائى كى درج ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچے كو ديكھا كہ اس كے كچھ بال منڈے ہوئے تھے، اور بعض ركھے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

” يا تو سارے مونڈ دو، يا پھر سارے ركھ لو ”

ابو داود حديث نمبر ( 4195 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس كے بال ہوں تو وہ ان كى تكريم كرے ”

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4163 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابو داود كى شرح “عون المعبود ” ميں اس حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھا ہے:

” يعنى وہ بالوں كو خوبصورتى سے سنوارے، اور اسے دھو كر صاف كرے، اور تيل لگائے، اور كنگھى كرے، اور انہيں بكھرے ہوئے مت چھوڑے، كيونكہ صفائى منظر كو اچھا اور خوبصورت بناتى ہے اور يہ پسنديدہ بھى ہے ” انتہى.

ليكن اگر بال لمبے كرنا لوگوں ميں غلط اور قبيح سمجھا جاتا ہو، يا پھر صرف يہ كام ايسے لوگ كرتے ہوں جو لوگوں ميں نچلے درجہ كے ہوں تو پھر ايسا نہيں كرنا چاہيے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” سر كے بالوں كو لمبا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال بعض اوقات كندھوں تك لمبے ہو جاتے تھے، تو يہ اپنى اصل پر ہى ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے باوجود يہ عادات اور عرف كے تابع ہے، اس ليے اگر كسى معاشرے اور عرف ميں يہ عادت ہو كہ وہاں لمبے بال صرف ايك مخصوص غلط قسم كا گروہ ركھتا ہو، تو پھر اہل مروؤت كے ليے ايسا نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كہ لوگوں كى عادات اور عرف نچلے اور گرے پڑے افراد سے آتى ہيں!

اس ليے بال لمبے ركھنے كا مسئلہ ان مباح اشياء ميں شامل ہوتا ہے جو لوگوں كى عادات اور عرف كے تابع ہے، لہذا جب لوگوں كى عادت اور عرف ميں ہو كہ ہر شخص شريف اور غير شريف افراد سب ايسا كرتے ہوں تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر ايسا صرف گرے پڑے لوگ ہى كرتے ہوں تو پھر شرف و مقام اور مرتبہ ركھنے والے شريف افراد كو ايسا نہيں كرنا چاہيے، اور اس پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كہ سب سے افضل اور اعلى مقام و مرتبہ ركھتے ہيں ان كے بال لمبے تھے، كيونكہ اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ بال ركھنا سنت اور عبادت ميں شامل نہيں، بلكہ يہ عادات اور عرف كے تابع ہے ” انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.

اہميت كے پيش نظر آپ سوال نمبر (69822 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں ہم نے ابن عبد البر رحمہ اللہ كى اس مسئلہ ميں بہت ہى نفيس كلام نقل كى ہے، جس كا مطالعہ كرنا بہت بہتر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android