آپ جناب كى اس شخص كے متعلق كيا رائے ہے جس نے اپنى بيوى كو صرف دفترى طلاق دى ہو يعنى: اس نے كسى معين مصلحت كى خاطر كاغذ پر طلاق لكھ دى ليكن حقيقت ميں بيوى كو طلاق نہ دى ہو، يعنى اس نے طلاق كا كلمہ زبان سے ادا نہيں كيا، اس كا مقصد تھا كہ طلاق كا يہ اسٹام ايك يورپى لڑكى سے شادى كرنے كے ليے استعمال كرے تا كہ اسے رہائش كا پرمٹ مل جائے، اور جب يہ كام ہو جائے تو اس آخرى بيوى كو طلاق دے كر اپنى پہلى بيوى سے عقد نكاح دوبارہ كر لے، اس طرح كے عمل ميں شرعى رائے كيا ہے ؟
كفريہ ملك ميں رہائش اختيار كرنے كے ليے كاغذ پر طلاق اور نكاح كا حكم
سوال: 103432
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نكاح ايك پختہ ميقاق اور معاہدہ ہوتا ہے، جو كہ عظيم شرعى احكام ميں شامل ہے، اس سے شرمگاہ مباح ہو جاتى ہے اور مہر اور وراثت جيسے حقوق ثابت ہوتے ہيں، اور اولاد كو ان كے باپ كى جانب منسوب كيا جاتا ہے، اس كے علاوہ اور بھى احكام مرتب ہوتے ہيں.
اور طلاق كے ساتھ بھى كچھ احكام مرتب ہوتے ہيں، جس كى بنا پر بيوى خاوند كے ليے حرام ہو جاتى ہے، اور وہ عورت وراثت سے محروم ہو جاتى ہے، اور اس خاوند كے علاوہ كسى اور خاوند كے ليے شادى كرنا حلال ہو جاتى ہے، اور اس ميں معروف شروط ہيں.
اس كو بيان كرنے سے ہمارى غرض اور مقصد مسلمانوں كو تنبيہ كرنا ہے كہ وہ ان دونوں عقدوں كو ايسى چيز ميں استعمال مت كريں جو اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع نہيں كي، اور اسے كھيل تماشا مت بنائيں، ہم نے ديكھا ہے كہ ـ اس پر جتنا بھى افسوس كيا جائے كم ہے ـ كئى لوگ عورت سے عقد نكاح اس ليے كرتے ہيں كہ كوئى دنياوى غرض و مقصد پورا كر ليا جائے، اس ليے نہيں كہ جو استمتاع اور فائدہ اس سے حاصل كرنا حرام تھا اسے حلال كرنے كے ليے نہيں اور نہ ہى اس ليے كہ اس عورت كے ساتھ مل كر ايك اچھا خاندان بنايا جائے ـ جس طرح ايك شرعى عقد نكاح كے ساتھ ہوتا ہے ـ بلكہ وہ دنياوى غرض كے ليے عقد كر كے اسے چھوڑ ديتے ہيں، يعنى يا تو زمين كے حصول كے ليے، يا پھر كسى دوكان كا لائسنس حاصل كرنے كے ليے، يا پھر نيشنلٹى اور رہائش كا پرمٹ حاصل كرنے كے ليے، يا پھر عورت اپنے ملك سے كسى دوسرے ملك سفر كر سكے.
يہ سب كچھ ايسا عمل ہے جس سے وہ مرد اس كا حقيقى خاوند نہيں بن جاتا، اور نہ ہى عورت اس كى حقيقى بيوى بنے گى، بلكہ يہ شكل اور صورت ميں تو شادى ہے! جو صرف كاغذ پر ايك سياہى تك محدود ہے اس كا حقيقت سے كوئى تعلق نہيں! اور يہ شريعت كے احكام كو كھيل تماشا بنانے كے مترادف ہے، ايسا كرنا حلال نہيں، اور نہ ہى اس ميں كسى قسم كى معاونت و تعاون كرنا جائز ہے، اور خاص كر اس حالت ميں تو بعينہ ممنوع ہو گى اور اس سے منع كرنا ضرورى ہو جائيگا جب اس عمل سے كسى حرام كام تك پہنچنے كى كوشش ہو اور حرام كام كا حصول ہوتا ہو، مثلا اگر كوئى شخص ايسا كر كے كسى كافر اور غير مسلم ملك ميں رہائش اختيار كرنا چاہتا ہو.
اور اس جيسا طلاق ميں بہت كم ہے، اور يہ ايك شرعى حكم ہے، كسى بھى شخص كو شريعت كے احكام سے كھيلنا اور اسے تماشا بنانا جائز نہيں، اور يہ لوگ اسے ” صورى طلاق ” كا نام ديتے ہيں! يہ كاغذ پر صرف سياہى تك ہى محدود ہے.
ان سب كو يہ علم ہونا چاہيے كہ وہ اس فعل اور عمل سے گنہگار ہوتے ہيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے نكاح اور طلاق اس ليے مشروع نہيں كيا كہ بيوى صرف عقد پر نام كى بيوى بن كر رہے، اور اس كو كوئى احكام حاصل نہ ہوں، اور نہ ہى اسے كوئى حقوق مليں.
انہيں يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ صرف عقد نكاح كے ساتھ ہى نكاح كے احكام ثابت ہو جاتے ہيں، اگر اس عقد نكاح ميں شرائط اور اركان كا پورا اہتمام كيا گيا ہو، اور اگر اس ميں سے كوئى شرط اور ركن رہ جائے تو وہ عقد باطل ہے، اور خاوند كى جانب سے بيوى كو صرف الفاظ كى ادائيگى سے ہى طلاق واقع ہو جاتى ہے، اس ليے شريعت اسلاميہ ميں نہ تو كوئى نكاح صورى ہے، اور نہ ہى صورى طلاق.
اور نكاح صورى يا طلاق صورى جيسا عمل كرنے والا اس وقت اور بھى زيادہ گنہگار ہو گا جب وہ اصل ميں كسى حرام كام كے حصول كى كوشش كرے، مثلا اگر كوئى شخص ايسا كر كے لوگوں كے حقوق اور قرض سے بھاگنے كى كوشش كرے، اور عورت حكومت يا كسى ادارے سے طلاق شدہ عورت كو دى جانے والى معاونت حاصل كرے، يا پھر وہ ايسا عمل كر كے كسى غير مسلم اور كافر ملك ميں رہائشى پرمٹ حاصل كرنے كى كوشش كرے جہاں اس كا رہنا حرام ہو، اس كے علاوہ دوسرے اور باطل و حرام مقاصد كے ليے بھى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” شارع نے اللہ كى آيات كو مذاق كرنا اور اس سے استہزاء كرنا منع كيا ہے، اور اس سے بھى منع كيا ہے كہ وہ ان آيات كے ساتھ كلام كرے جو عقد والى ہيں، ليكن اگر وہ حقيقى طور پر كرنا چاہتا ہے جس سے شرعى مقصد حاصل ہوتا ہو تو جائز ہے، اسى ليے اس سے مذاق كرنا ممنوع ہے، اور اسى طرح حرام كو حلال كرنا بھى ممنوع ہے، اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اللہ تعالى كى آيات كو مذاق مت بناؤ .
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
ان لوگوں كو كيا ہو گيا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى كى حدود سے كھيلتے اور اس سے مذاق كرتے ہيں كہتے ہيں: ميں نے تجھے طلاق دى، ميں نے تجھ سے رجوع كيا، ميں نے تجھے طلاق دى، ميں نے تجھ سے رجوع كيا “
اس سے معلوم ہوا كہ اس سے كھيلنا اور اسے تماشا بنانا حرام ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 6 / 65 ).
اس بنا پر اگر كوئى شخص كسى ايسى عورت سے شادى كرتا ہے جو اس كے ليے حلال تھى، اور اس شادى ميں شرعى شروط پائى جاتى ہوں، اور اركان بھى پورے ہوں، اور كوئى مانع بھى نہ ہو تو يہ نكاح صحيح ہے اس پر نكاح كے نتائج اور اثرات مرتب ہونگے.
اور جب كوئى شخص اپنى بيوى كو لفظا طلاق دے تو وہ طلاق ہو جائيگى، چاہے وہ اس سے طلاق كى تنفيذ كا ارادہ نہ بھى ركھتا ہو.
رہا مسئلہ لكھ كر طلاق دينے كا اور زبان سے طلاق كے الفاظ ادا كيے بغير صرف لكھنا تو اس كى تفصيل سوال نمبر (72291 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
اس يورپى لڑكى سے وہاں رہائشى پرمٹ حاصل كرنے كے ليے شادى كرنا اور پھر اس كے بعد اسے طلاق دينا حرام فعل ہے، ہم نے اس سلسلہ ميں شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا فتوى نقل كيا ہے كہ يہ حرام ہے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 2886 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
وہ يہ كہ اگر وہ اس لڑكى سے نكاح كى پورى شروط كے بغير نكاح كرتا ہے مثلا: ولى كے بغير يا پھر نكاح صحيح ہونے ميں كوئى مانع كى موجودگى ميں مثلا: وہ لڑكى زانيہ ہو اور اس نے توبہ نہيں كى، يا پھر وہ لڑكى اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو: تو اس كا نكاح باطل اور حرام ہے.
اور اگر وہ اس لڑكى سے پورى شروط اور اركان كے ساتھ نكاح كرتا ہے، اور اس ميں كوئى مانع بھى نہيں پايا جاتا تو اس سے شادى صحيح ہے، اور اس شادى كے احكام اور اثرات مرتب ہوں گى اور اس كى نيت اس پر حرام ہو گى.
سوم:
وہاں رہائش كا پرمٹ حاصل كرنے كے ليے پہلى بيوى كو كاغذ پر طلاق دينا، اور دوسرى بيوى سے شادى كرنے ميں دو اور بھى مانع پائے جاتے ہيں:
پہلا مانع:
حيلہ سازى، اور جھوٹ اور جھوٹى گواہى، يہ حكومت كے ساتھ حيلہ بازى ہے،اور شہريت كے حصول كے ليے گورنمنٹ كو دھوكہ ديا جا رہا ہے، اور يہ حرام ہے.
دوسرا مانع:
وہ اس صورى طلاق اور صورى شادى كے ساتھ كافر اور غير مسلم ملك ميں رہائش حاصل كرنا چاہتا ہے، اور ہمارے دين ميں ہے كہ بغير كسى ضرورت كے كافر اور غير مسلم ملك ميں رہنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں مسلمان كے دين اور اخلاق كو بہت ہى زيادہ خطرہ ہے، اور پھر اس كے خاندان اور اس پر بھى.
جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں ہر اس مسلمان شخص سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر (27211 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.
اس ليے ہم اپنے بھائيوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ ان شرعى عقود ميں اللہ سے ڈرتے ہوئے تقوى اختيار كريں، اور وہ اسے اپنى دنياوى غرض و غايت كے حصول كا ذريعہ مت بنائيں اور اگر وہ غرض و غايت حرام ہو تو بہتر يہى ہے كہ اس سے رك جائيں، اور اپنى بيويوں اور اولاد كے متعلق اللہ كا تقوى اختيار كريں، اور وہ غور كريں كہ ان كے ان افعال كى بنا پر وہ كس قدر تنگى اور مشكل كا شكار ہونگے، يا پھر وہ حقوق سے محروم رہ جائينگے، اور اس كے علاوہ دوسرى خرابياں جو ان فاسد قسم كے عقود پر مرتب ہوتى ہيں ان كا شكار ہونگے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات