ميرے والد صاحب اس موسم حج ميں فوت ہو گئے ہيں، ہمارے ہاں عادت ہے كہ لوگ تعزيت كے ليے آتے ہيں اور اس كے بعد سب لوگ فاتحہ پڑھنے اور ميت كى دعا كے ليے ہاتھ اٹھاتے ہيں، مجھے علم ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں، ميں نے اس كا انكار كرتے ہوئے اس سے دور رہنے كى بہت كوشش كى ہے، اب ميرے كچھ سوالات ہيں:
تعزيت كے وقت كيا كچھ كرنا چاہيے اور كيا نہيں كرنا چاہيے؟
ميت اٹھاتے وقت كيا كہنا چاہيے؟
قبر ميں ميت ركھتے وقت كيا كہنا چاہيے؟
كيا قبر پر بطور علامت قبر پر نام كا كتبہ لگانا ممكن ہے؟
دفن كرنے كے بعد كونسى دعا كى جاتى ہے؟
فوت شدہ شخص كى قبر پر پانى ركھنے والى بات كہاں تك صحيح ہے ؟
ميت دفن كرنے اور اس كے اہل وعيال كے ساتھ تعزيت كا طريقہ
سوال: 10373
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جنازہ اٹھانا اور اس كے ساتھ چلنا واجب ہے، اور يہ مسلمانوں پر ميت كا حق ہے، ايسا كرنے والے كے ليے شريعت مطہرہ نے اجروثواب بھى مقرر كيا ہے، اور فضيلت بھى ركھى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى جنازہ كے ساتھ اس كے گھر سے شامل ہوتا ہے"
اور ايك روايت ميں ہے:
" جو كوئى كسى مسلمان كے جنازہ ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے شامل ہوتا ہے اور نماز جنازہ تك اس كے ساتھ رہتا ہے تو اسے ايك قيراط اور جو شخص اسے دفنانے تك اس كے ساتھ رہتا ہے اسے دو قيراط ثواب حاصل ہوتا ہے"
صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم دو قيراط كيا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دو عظيم اور بڑے پہاڑوں جتنا"
صحيح بخارى شريف كتاب الجنائز حديث نمبر ( 1240 ).
اور جنازے كےساتھ ايسى اشياء لے كر جانا جائز نہيں جو خلاف شريعت ہوں، ان اشياء ميں مندرجہ ذيل شامل ہيں:
بلند آواز سے آہ بكا كرنا، اور جنازے كے ساتھ خوشبو والى دھونى لے جانا، جنازہ كے آگے آگے بلند آواز سے ذكر كرنا، كيونكہ يہ بدعت ہے، اور اس ليے بھى كہ قيس بن عباد رحمہ اللہ تعالى كا قول ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام جنازہ كے پاس آواز بلند كرنا نا پسند كرتے تھے"
اور اس ليے بھى كہ ايسا كرنے ميں نصارى كے ساتھ مشابھت ہوتى ہے.
دوم: دفن كرنا:
مسلمان شخص كو كافر كے ساتھ اور كافر كو مسلمان كے ساتھ دفن نہيں كيا جائےگا، اور مسلمان كو مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائےگا.
سنت طريقہ يہ ہے كہ ميت كو قبر كے پچھلے حصہ سے داخل كيا جائے، اور ميت كو اس كى قبر ميں دائيں كروٹ پر ركھا جائے، اور ميت كا چہرہ قبلہ رخ كيا جائے، اور لحد ميں ركھتے وقت مندرجہ ذيل دعا پڑھى جائے:
" بسم اللہ و على سنۃ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم "
يا پھر
" بسم اللہ و على ملۃ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم "
اللہ تعالى كے نام سے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت يا ملت پر.
اسے ترمذى نے كتاب الجنائز حديث نمبر ( 967 ) ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 836 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور قبر كے پاس كھڑے لوگوں كے ليے مستحب ہے كہ وہ لحد بند كرنے كے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے تين بار مٹى بھر كر قبر پر پھينكيں.
اور دفن سے فارغ ہونے كے بعد كچھ امور كرنے مسنون ہيں:
قبر نہ تو زمين كے برابر ركھيں اور نہ ہى زيادہ اونچى كريں بلكہ صرف زمين سے ايك بالشت اونچى ركھيں تا كہ قبر كى تميز ہو اور خيال ركھا جا سكے اور اس كى توہين نہ ہو، اور قبر پر پتھر وغيرہ كى علامت ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، تا كہ وہاں اس كے عزيز و اقارب كے فوت ہونے كى صورت ميں وہيں دفن كيے جاسكيں، اور مٹى اور گردوغبار كو اڑنے سے روكنے كے ليے پانى چھڑكا جا سكے.
اور ميت كو تلقين نہ كى جائے جيسا كہ بعض لوگوں كے ہاں معروف ہے وہ قبر كے پاس كھڑے ہو كر تلقين كرتے ہيں، ايسا نہيں كرنا چاہيے بلكہ قبر كے پاس كھڑے ہو كر اس كى ثابت قدمى اور اس كے ليے دعائے استغفار كرنى چاہيے اور حاضرين كو بھى اس كا حكم دے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب ميت كو دفن كرنے سے فارغ ہوتے تو اس ( كى قبر ) پر كھڑے ہو كر فرماتے:
" اپنے بھائى كے ليے دعائے استغفار اور اس كى ثابت قدمى كى دعا كرو، كيونكہ اس وقت اس سے سوال كيا جا رہا ہے"
سنن ابو داود الجنائز حديث نمبر ( 2804 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 2758 ).
اور قبر كے پاس قرآن مجيد ميں سے كچھ بھى نہيں پڑھا جائےگا كيونكہ يہ بدعت ہے، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے ايسا كيا، اور اسى طرح قبروں پر تعمير كرنى اور اسے پختہ كرنا، اور اس پر لكھنا اوركتبہ لگانا بھى حرام ہے، اس كى دليل جابر رضى اللہ تعالى عنہ كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
" رسول كريم صلى اللہ وسلم نے قبر پختہ كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر تعمير كرنے سے منع فرمايا "
صحيح مسلم شريف الجنائز حديث نمبر ( 1610 )
اور ابو داود كى روايت ميں ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كو پختہ كرنے اور ان پر لكھنے اور انہيں روندھنے سے منع فرمايا"
سنن ابو داود الجنائز حديث نمبر ( 3226 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 2763 ).
سوم:
ميت كے گھر والوں كےساتھ تعزيت كرنى مشروع ہے، اور تعزيت اس طرح ہونى چاہيے جس ميں اس كا خيال يہ ہو كہ ميت كے گھر والوں كى اس ميں تسلى اور سكون ہے، اور ان كے غم كو ہلكا كيا جا سكتا ہے، اور انہيں صبر پر ابھارے، اور ان كے ساتھ اس طرح تعزيت كرے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اگر تو اسے ياد ہو، وگرنہ پھر جو اس كے آسان ہو اس كے ساتھ تعزيت كرے مثلا اچھى اور بہتر كلام جو تعزيت كى غرض و غايت كو پورا كرے اور شريعت كے مخالف نہ ہو.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہے كہ آپ فرمايا كرتے تھے:
" بلا شبہ جو كچھ اللہ تعالى نے ليا ہے وہ اسى كا تھا اور جو اس نےديا ہے وہ اسى كا ہے، اور ہر چيز اس كے پاس مقرر وقت كے ساتھ ہے، اس ليے تمہيں چاہيے كہ صبر كريں، اور اجروثواب كى نيت ركھو"
صحيح بخارى الجنائز حديث نمبر ( 1204 ).
اور دو معاملوں سے بچنا ضرورى ہے:
تعزيت كے ليے اجتماع كرنا، اگرچہ لوگ اس كى عادت بنا ليں.
ميت كے گھر والوں كا تعزيت كے ليے آنے والوں كے ليے كھانے كا اہتمام كرنا.
سنت تو يہ ہے كہ ميت كے اقرباء اور رشتہ دار ميت كے اہل و عيال كے ليے كھانا تيار كريں.
واللہ تعالى اعلم
مزيد تفصيل كے ليے علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كى كتاب احكام الجنائز اور شيخ فوزان كى كتاب الملخص الفقھى ( 213 – 216 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد