کبھی میرے پاؤں کی پھٹن میں ایسی چیزیں گھس جاتی ہیں جنہیں نکالنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا تو کیا میرا وضو صحیح ہو گا؟ ایک بار میرے پاؤں کی پھٹن میں تارکول پھنس گیا، میں نے کچھ حصہ تو اس کا نکال دیا لیکن باقی نہیں نکال سکا، تو کیا اس طرح میری نماز صحیح ہو گی؟ نماز کے اوقات کی یاد دہانی کروانے والی ایپ موجود ہیں لیکن ان کے حقوق محفوظ رکھے گئے ہیں تو کیا ان کا استعمال جائز ہو گا؟
اگر پاؤں پر کوئی ایسی چیز لگ جائے جس سے جلد تک پانی نہ پہنچے اور اسے زائل کرنا بھی مشکل ہو
سوال: 104354
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جلد تک پانی کی رسائی روکنے والی چیزوں کو جلد سے زائل کرنا واجب ہے، لیکن نہایت معمولی چیزوں میں چھوٹ ہو گی مثلاً: ناخنوں اور پاؤں کی پھٹن میں پھنسی ہوئی میل وغیرہ کہ جسے زائل کرنے کی کوشش کی جائے تب بھی زائل نہ ہو تو اس میں چھوٹ ہے۔
چنانچہ علامہ مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (1/158)میں کہتے ہیں:
"اگر ناخنوں کے نیچے معمولی میل پھنسی ہوئی ہو جس سے ناخن کے نیچے پانی نہ پہنچ پائے تو پھر اس کی طہارت صحیح نہیں ہو گی۔ یہ ابن عقیل کا موقف ہے۔ جبکہ ایک موقف یہ ہے کہ طہارت صحیح ہے۔ اور یہی موقف درست ہے۔ اسی موقف کی جانب مصنف ابن قدامہ رحمہ اللہ مائل ہیں، اور الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔
جبکہ ایک موقف یہ بھی ہے کہ جس کے لیے اس سے بچنا مشکل ہو تو اس کی طہارت صحیح ہے، مثلاً: ایسے لوگ جن کا پیشہ زراعت جیسا سخت محنت طلب ہے [یا رنگ سازی وغیرہ۔ مترجم]
جبکہ الشیخ تقی الدین نے اس حکم میں ہر ایسی معمولی چیز کو شامل کر دیا جو جلد تک پانی نہ پہنچنے دے، مثلاً: آٹا اور خون وغیرہ ۔ پھر اس موقف کو اختیار بھی کیا ہے۔ " ختم شد
اگر جلد کے ساتھ چپکنے والی چیز زیادہ ہو اور اسے زائل کرنا بھی مشکل ہو تو اس میں چھوٹ نہیں ہے لہذا آپ اس پر پٹی کی طرح مسح کریں گے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جسم پر کوئی ایسی چیز لگی ہو جو پانی جلد تک نہ پہنچنے دے تو ایسے شخص کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس شخص نے یہ عضو دھویا ہے۔ لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: معمولی مقدار میں چھوٹ ہے، خصوصاً ایسے شخص کے لیے جس کا روز کا کام ہی اس نوعیت کا ہو۔ تو یہ بات ایسے لوگوں پر صادق آتی ہے جو رنگ سازی کا کام کرتے ہیں؛ کیونکہ جسم کے مختلف حصوں پر رنگ کے چھینٹے پڑے ہوتے ہیں جنہیں وہ بھول چکے ہوتے ہیں یا انہیں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے وہ رنگ کے چھینٹوں کو فوری زائل کریں۔ تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق ان لوگوں کو چھوٹ ہے۔ تاہم ہمیں حدیث مبارکہ کو بھی ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ [صحیح مسلم: (243) میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے وضو کیا اور پاؤں پر ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑ دی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: (واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو) تو وہ شخص وضو کے لیے واپس گیا اور پھر اس نے نماز ادا کی۔] چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں معمولی جگہ کا خشک رہنا بھی معاف نہیں ہے، لہذا نماز کا وقت گزرنے سے پہلے اگر وہ اس چیز کو زائل کر سکتا ہو تو زائل کرے وگرنہ اس پر پٹی کی طرح مسح کرے۔ " ختم شد
ماخوذ از: شرح الکافی
دوم:
موبائل ایپ کے استعمال کے لیے مالک اجازت نہ دے تو اسے کاپی نہیں کر سکتے، اس کی تفصیلات ہم پہلے سوال نمبر: (454 ) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات