ايك عورت نے ايك مسلمان شخص سے شادى كى اور جرمنى ميں اسلامى عقد نكاح كو سركارى طور پر تسليم نہيں كيا جاتا، اب عورت اپنے خاوند سے طلاق حاصل كرنا چاہتى ہے ليكن خاوند طلاق نہيں دينا چاہتا وہ كہتا ہے كہ وہ عورت استطاعت نہيں ركھتى، ہميں كيا كرنا چاہيے ؟
بيوى خاوند سے عليحدگى چاہتى ہے اور خاوند نہيں چاہتا اور حكومت ان كے عقد نكاح كو تسليم نہيں كرتى
سوال: 104534
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جب عقد نكاح كى شروط اور اركان پورے ہوں تو عقد نكاح صحيح ہے، چاہے وہ سركارى طور پر رجسٹر نہ بھى كرايا گيا ہو.
ليكن يہاں يہ تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ سركارى طور پر نكاح رجسٹر كرانے ميں كوتاہى اور سستى نہيں كرنى چاہيے تا كہ اس كے نتيجہ ميں يہ كھيل نہ بن جائے، يا پھر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك اس عقد نكاح سے انكار نہ كر سكے.
دوم:
بغير كسى شديد ضرورت و حاجت كے عورت كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس عورت نے بھى بغيرى كسى تنگى اور ضرورت كے اپنے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشخبو حرام ہے “
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا كوئى ايسى شرعى دليل ملتى ہے جس ميں بغير كسى شرعى سبب كے طلاق كا مطالبہ كرنے والى پر لعنت كى گئى ہو؟
شيخ كا جواب تھا:
” لعنت والى حديث تو مجھے ياد نہيں، ليكن اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد ضرور آئى ہے اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
” جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى و ضرورت كے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے ”
يہ بہت شديد وعيد ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ اس عورت پر جنت كى خوشبو حرام ہے، چنانچہ يہ بہت شديد وعيد ہے، اس ليے عورت پر واجب ہے كہ وہ اپنے متعلق اللہ كا ڈر اختيار كرے، اور اپنے خاوند كے بارہ ميں بھى اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور كسى شرعى سبب كے بغير طلاق كا مطالبہ مت كرے.
ليكن بعض اوقات عورت اپنے خاوند كو ناپسند كرنے كى وجہ سے خاوند كے ساتھ رہنے پر صبر نہيں كر سكتى، جيسا كہ ثابت بن قيس بن شماس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى تھى، اور اس كا قصہ آگے بيان ہوا گا.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 8 ) سوال نمبر ( 18 ).
يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ عورت كے ليے ممنوع تو يہ ہے كہ وہ بغير كسى تنگى و حاجت كے طلاق كا مطالبہ كرے، ليكن اگر وہ خاوند كے كسى اخلاقى برائى كى بنا پر يا پھر حقوق زوجيت ميں كوتاہى كى وجہ سے خاوند كے ساتھ رہنے كو ناپسند كرتے ہوئے طلاق مانگتى ہے تو اس كے ليے جائز ہے.
اور طلاق كے ساتھ ساتھ وہ اپنے سارے مالى حقوق بھى حاصل كريگى، ليكن اگر يہ ناپسنديدگى اس كى اپنى جانب سے ہو اور خاوند كى جانب سے نہ ہو اور خاوند ميں دينى يا اخلاقى عيب كے بغير وہ اپنے خاوند كے ساتھ رہنے كى استطاعت نہ ركھتى ہو تو وہ طلاق كا مطالبہ نہيں كريگى بلكہ وہ خاوند سے خلع حاصل كريگى.
اس طرح بيوى اپنے خاوند كو سارا مہر ادا كريگى اور اس پھر خاوند اسے چھوڑ ديگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے شادى كى اور كچھ ايام كے بعد ہى بيوى نے اس سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، حالانكہ خاوند اسے اپنى عصمت ميں ركھنا چاہتا تھا، تو وہ بيوى كو دخول كے بعد كہنے لگا: اگر تم چاہتى ہو تو خلع لے لو، چنانچہ بيوى نے معاملہ عدالت ميں پيش كر ديا اور طلاق حاصل كر لى، حالانكہ وہ بيوى كو اپنے ساتھ ركھنا چاہتا تھا، تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اس عورت نے اپنے خاوند سے خلع طلب كيا ہے ـ اور خلع يہ ہے كہ: خاوند اپنى بيوى كو كسى معاوضہ كے عوض ميں جدا كرے، چاہے وہ عوض بيوى ادا كرے يا پھر اس كے والد كى جانب سے ہو، يا كسى اور اجنبى شخص كى جانب سے ـ ہم كہتے ہيں:
اول:
عورت كے ليے اپنے خاوند سے شرعى سبب كے بغير طلاق كا مطالبہ كرنا حلال نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى تنگى و حاجت كے طلاق مانگى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے ”
ليكن اگر طلاق طلب كرنے كا كوئى شرعى سبب ہو مثلا بيوى اپنے خاوند كو اس كے دين ميں خرابى كى وجہ سے ناپسند كرتى ہو، يا پھر اس كے اخلاق كى وجہ سے، يا پھر وہ اس كے ساتھ نہ رہ سكتى ہو اگرچہ دو دينى اور اخلاقى طور پر صحيح ہو تو اس صورت ميں طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اس حالت ميں وہ خاوند سے خلع حاصل كريگى يعنى خاوند اسے جو كچھ ديا ہے وہ اسے واپس كريگى اور پھر نكاح فسخ كر ديا جائيگا.
اس كى دليل يہ ہے كہ:
ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو ميں ثابت بن قيس كے دين ميں عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى اخلاق ميں ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟
ثابت بن قيس نے بيوى كو باغ مہر ميں ديا تھا.
وہ كہنے لگى: جى ہاں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اے ثابت تم باغ قبول كر كے اسے ايك طلاق دے دو ”
اس قصہ سے علماء كرام نے يہ اخذ كيا ہے كہ اگر عورت اپنے خاوند كے ساتھ رہنے كى استطاعت نہ ركھتى ہو تو عورت كا ذمہ دار اور ولى اس كے خاوند سے خلع دينے كا مطالبہ كر سكتا ہے، بلكہ وہ اسے اس كا حكم دے.
بعض علماء كا كہنا ہے: اس سے خلع كرنا لازم ہے؛ كيونكہ اس حالت ميں اس پر كوئى ضرر اور نقصان نہيں؛ كيونكہ اس نے جو مہر اسے ديا ہے وہ اسے واپس مل جائيگا، اور اسے راحت ديگا.
ليكن اكثر علماء كرام كا كہنا ہے:
اس سے خلع كرنا لازم نہيں آتا، ليكن اس كے ليے خلع كرنا مندوب ہوگا اور اسے اس كى رغبت دلائى جائيگى، اور خاوند كو كہا جائيگا:
” جس كسى نے بھى كوئى چيز اللہ كے ليے چھوڑى تو اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرمائيگا ”
ميرى رائے ميں اب ہمارے سامنے ايك مشكل ہے: اس عورت كا اس شخص كى عصمت ميں رہنا اسے كسى دوسرے شخص سے شادى كرنے ميں ركاوٹ اور مانع ہے، اور عدالت كے فيصلہ كے مطابق اسے خاوند سے طلاق حاصل ہوئى ہے، اور جب اس كى عدت ختم ہو جائے تو اس كے ليے شادى كرنا جائز ہوگا ميرى رائے يہ ہے كہ اس مشكل سے نكلنے كے ليے اہل خير اور اصلاح پسند افراد كو آگے بڑھ كر اس مسئلہ كو حل كرنا چاہيے تا كہ وہ خاوند اور بيوى كے مابين صلح كرائيں.
وگرنہ بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو عوض ادا كرے تا كہ يہ شرعى طور پر خلع ہو جائے ” انتہى
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 54 ) سوال نمبر ( 1 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خاوند اور بيوى كے مابين ـ جيسا كہ ظاہر ہے ـ عقد نكاح صحيح ہے، اور بغير شرعى ضرورت كے بيوى كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز نہيں، اگر تو بيوى اپنے خاوند كى وجہ سے اس كے ساتھ رہنا پسند نہيں كرتى تو وہ طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے اور اپنے سارے حقوق بھى حاصل كريگى.
ليكن اگر خاوند كے ساتھ رہنے كى ناپسنديدگى كا سبب بيوى كى جانب سے ہے تو پھر وہ خاوند سے خلع لے سكتى ہے اور بہتر يہى ہے كہ خاوند خلع كو قبول كر لے اور اس سے انكار نہ كرے.
ہم دونوں كو يہى مشورہ ديتے ہيں كہ وہ اس مسئلہ كو حل كرنے كے ليے اہل علم اور اہل خير و صلاح جو حكمت بھى ركھتے ہوں اور اصلاح كرانے والے ہوں كو درميان ميں ڈاليں، اور اگر معاملہ كسى بند راہ پر پہنچ جائے اور ان كى آپس ميں صلح نہ ہو تو وہ عورت كسى اور سے اس بنا پر شادى نہيں كر سكتى كہ جرمن حكومت اس نكاح كو تسليم نہيں كرتى.
بلكہ اس كے اور خاوند كے مابين كتاب و سنت كے مطابق عليحدگى ہونا ضرورى ہے، اس صورت ميں خاوند اور بيوى دونوں ہى كسى اسلامك سينٹر جا كر اپنى مشكل كو شرعى احكام كے مطابق حل كروائيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب