جب سارے انسان آدم عليہ السلام كى نسل ميں سے ہيں تو اس كا معنى يہ ہوا كہ ابتدا ميں محرم مرد و عورت كا آپس ميں نكاح جائز تھا، تو پھر يہ حرام كب كيا گيا ؟
انسان كى ابتدا ميں محرم مرد و عورت كا ايك دوسرے كے ساتھ نكاح
سوال: 104638
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ابتدا ميں ضرورت كا يہ تقاضا تھا كہ آدم عليہ السلام كى اولاد كا آپس ميں نكاح كيا جائے تا كہ نسل باقى رہے اور آگے چلے اور زمين ميں آبادى ہو.
بعض آثار ميں ملتا ہے كہ آدم عليہ السلام كے ہاں جب بھى بچہ پيدا ہوتا تو اس كے ساتھ ايك بچى بھى پيدا ہوتى، تو اس طرح يہ بچى پہلے سے پيدا شدہ بچے كے ساتھ شادى كرتى، اور دوسرے حمل سے پيدا ہونے والى بچى پہلے حمل سے پيدا ہونے والے بچے كے ساتھ شادى كرتى، اور ايك دفعہ اكٹھے پيدا ہونے والے بچے اور بچى كے ليے آپس ميں نكاح كرنا حرام تھا.
اس سلسلہ ميں جو آثار وارد ہيں وہ ابن جرير طبرى رحمہ اللہ نے ابن عباس اور ابن مسعود رضى اللہ عنہم سے روايت كيے ہيں.
ديكھيں: تفسير طبرى ( 10 / 205 – 207 ).
پھر ہم نہ تو قرآن مجيد ميں اور نہ ہى سنت نبويہ ميں تاريخى طور پر ان مراحل كو نہيں پاتے جن ميں محارم كے شادى كے احكام بيان كيے گئے ہوں، اور نہ ہى محرم كا درجہ قرابت بھى نہيں ملتا جس سےمحرميت واجب ہوتى ہو.
ليكن ہميں قرآن مجيد ميں جو ملتا ہے وہ يہ ہے كہ محرم مرد و عورت كے مابين شادى كرنا حرام ہے، اور وسيع درجہ پر يہ ہے كہ يہ شادى كى حرمت بھتيجى اور بھانجى اور والد كى بيوى پر مشتمل ہے بلكہ يہ تو رضاعت كے باعث بھى حرمت پر مشتمل ہے اسى كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
] حرام كى گئيں ہيں تم پر تمہارى مائيں اور تمہارى بيٹياں اور تمہارى بہنيں، اور تمہارى پھوپھياں، اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى بيٹياں اور بہن كى بيٹياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے اور تمہارى دودھ شريك بہنيں اور تمہارى ساس اور تمہارى پرورش ميں موجود لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ كيا ہو تو تم پر كوئى گناہ نہيں ا ور تمہارے صلبى سگے بيٹوں كى بيوياں اور تمہارا دو بہنوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا، ہاں جوگزر چكا سو گزر چكا، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے [النساء ( 23 ).
اور جو كوئى شخص بھى محرم مرد عورت كى شادى كے احكام كے مراحل كى تاريخ كے بارہ ميں غور و خوض كرتا ہے اور اس كى تفصيل جاننے كى كوشش كرتا ہے تو اس نے ايسے امور ميں غور خوض كرنے كى كوشش كى جو حوادث تاريخ اور رسولوں كى شرائع ميں مظنون امور ہيں، اور ان ميں اكثر طور پر اہل كتاب سے منقول شدہ روايات پر اعتماد كيا جاتا ہے ـ جيسا كہ كسى پر مخفى نہيں ـ يہ روايات خطا و غلطى اور اوہام اور زيادتى و نقصان پر مشتمل ہيں اور اس كا گمان ہے، جسے بعض مؤرخين آدم عليہ السلام كے قصہ ميں نقل كرتے ہيں جيسا كہ بعض مفسرين نے درج ذيل آيت كى تفسير ميں بھى ذكر كيا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
] اور آدم عليہ السلام كے دو بيٹوں كا كھرا كھر حال بھى انہيں سنا دو، ان دونوں نے ايك نذرانہ پيش كيا ان ميں سے ايك نذر تو قبول كر لى گئى اور دوسرے كى قبول نہ ہوئى تو وہ كہنے لگا كہ ميں تجھ كو قتل كر دونگا، اس نے كہا اللہ تعالى تقوى والوں كا ہى عمل قبول كرتا ہے [المآئدۃ ( 27 ).
اور اسى طرح بعض معاصر لوگ اسے تورات اور انجيل سے تلاش كرتے پھرتے ہيں جو آج كل تحريف شدہ ہى ملتى ہيں اور اپنى اصلى حالت ميں ان كى كوئى كتاب باقى نہيں رہى، اور بعض اسے پچھلى قوموں كى تاريخى كتب سے تلاش كرنے كى كوشش كرتے ہيں.
اور پھر سابقہ شريعتوں ميں محرم مرد و عورت كے نكاح كى حرمت كے وقت كى معرفت كا ہميں كوئى فائدہ بھى نہيں كيونكہ اگر اس كا كوئى فائدہ ہوتا تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كا ذكر كر ديتا، يا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہى اس كا ذكر كر ديتے جنہوں نے كوئى فائدہ مند چيز ذكر كيے بغير نہيں چھوڑى، ہمارے ليے جو ممد و معاون ہے وہ يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہمارے ليے اپنى كتاب عزيز ميں محرم عورتوں سے نكاح قطعى طور پر حرام كيا ہے، اور اس پر سنت نبويہ اور اجماع امت بھى دلالت كرتا ہے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب