0 / 0
7,06131/01/2015

دل ميں اپنے آپ سے طلاق كى بات كى اور آہستہ آواز ميں الفاظ بھى ادا كيے

سوال: 104905

ميرے اور بيوى كے مابين اختلاف پيدا ہوا بيوى اور اس كى والدہ نے مجھے بہت ہى تنگ كيا حتى كہ ميرا دل گھٹنے لگا اور ميں اس حالت ميں ہو گيا جس كى تعزيت كى جا سكتى ہے كچھ ايام تك يہى حالت رہى ميں اسى حالت ميں تھا اور مسجد كى جانب جاتے ہوئے خيالات ميں آيا كہ ہم مصر واپس گئے ہيں ميں اور بيوى لوگوں كى ايك مجلس ميں بيٹھے ہيں تو ميں نے كہا: تجھے تين طلاق، اور يہ الفاظ ميں نے آہستہ آواز ميں ادا بھى كيے، اور ايك بار پھر يہ اسى شكل ميں دبارہ بھى ہوا، ليكن ميں نے كہا: ميں تجھے آرام دونگا، تجھے طلاق ليكن ميں يہ نہيں جانتا كہ اس وقت ميرے ہونٹوں ميں جنبش ہوئى يا نہيں ؟

اس كے ايك يا دو دن كے بعد مجھے اس كا احساس ہوا كہ يہ كيا ہوا ہے، ميرے دل ميں يہ پيدا ہوا كہ يہ چيز تو تين يا چار بار ہو چكى ہے، ليكن مجھے ياد صرف دو بار ہى ہيں جن كا ميں ذكر كر چكا ہوں.

يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اسے كئى برس قبل ـ حيض كى حالت ميں ـ كہا تھا تجھے طلاق، يہ ياد رہے كہ ميں ايشا شخص ہوں جس كى ياداشت صحيح نہيں اور بہت بھولنے والا ہوں اسى طرح جب كوئى اہم كام ہو تو اپنے آپ سے بات كرنے والا شخص ہوں، اور بعض اوقات تو يہ كلام بلند آواز سے ہوتى ہے برائے مہربانى ميرى راہنمائى فرمائيں اور نصيحت كريں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

صريح طلاق كے الفاظ مثلا آدمى كہے: تجھے طلاق، يا ميرى بيوى كو طلاق، اس ميں طلاق واقع ہونے كى نيت كى شرط نہيں ہے، اگر وہ نيت نہ بھى كرے تو طلاق واقع ہو جائيگى ليكن اس ميں لفظ كا قصد اور اس كے معانى كى معرفت كا ہونا شرط ہے.

اس ليے اگر كوئى شخص نيند ميں يا پھر بھولنے والا شخص طلاق كا كلمہ بولے اور اس كا يہ الفاظ نكالنے كا مقصد نہ تھا تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اسى طرح اگر وہ عجمى شخص جسے طلاق كے معانى كا ہى علم نہيں وہ يہ الفاظ بولے تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

اس بنا پر آپ كو اپنے تخيل كا ذكر كيا ہے كہ خيالاتى طور پر لوگوں كے اجتماع ميں دو بار طلاق دى اور يہ چيز تين يا چار بار تكرار سے ہوئى اور ہلكى آواز ميں يہ الفاظ صادر ہوئے اس سے طلاق واقع نہيں ہوئى.

كيونكہ يا تو يہ اپنے آپ سے دل ميں بات كرنے ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ معاف ہے، يا پھر آپ نے طلاق كے الفاظ بولنے كا ارادہ اور قصد ہى نہيں كيا تھا اس ميں شامل ہوتا ہے كہ آپ اس وقت طلاق نہيں دينا چاہتے تھے.

بلكہ يہ تو آپ كا تخيل تھا جو ہو سكتا ہے مستقبل ميں پيدا ہو، اس سے بھى اب طلاق واقع نہيں ہوتى، اور خاص كر آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ آپ كو ياد نہيں رہتا اور بھول جاتے ہيں ہكا بكا رہتے ہيں، اور جب آپ كوئى كام كرنا چاہيں تو آپ اپنے دل ميں بات كرتے ہيں اور بعض اوقات تو الفاظ بھى آہستہ آواز سے آتى ہے.

رہا مسئلہ آپ كى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دينے كا تو اس پر علماء كا اجماع ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے، آپ كے ليے اس سے توبہ و استغفار كرنا واجب ہے، اور يہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا نہيں كرينگے.

اور اگر آپ نے كسى عالم دين سے اس كے متعلق پہلے دريافت كر ليا تھا كہ اس سے طلاق ہوتى ہے يا نہيں ؟

 تو آپ اس كے فتوى پر عمل كريں جو اس نے آپ كو فتوى ديا تھا.

واللہ اعلم

.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android