بعض علاقوں اور شہروں ميں گانے بجانے اور موسيقى كى محفليں اور ادبى مجلسوں ميں مختلف قسم كے ڈراموں كى محفليں سجائى جاتى ہيں جس ميں ملكى اور غير ملكى ساز اور موسيقى بجائى جاتى ہے، اور ہر جگہ سے فنكار اور اداكار بلائے جاتے ہيں، اور بعض اوقات اس ميں داخلہ ٹكٹ اور بعض اوقات بغير ٹكٹ ہوتا ہے.
جناب والا سوال يہ ہے كہ:
اس طرح كى شاميں اور محفليں سجانے اور تفريح كے ليے وہاں جا كر ان محفلوں كو ديكھنے اور سننے كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا ميں اس طرح كى محفلوں ميں ملى نغميں گانے كے ليے شريك ہو سكتا ہوں ؟
اس معاملہ ميں ہم مشكل سے دوچار ہيں كيونكہ كچھ لوگوں كا كہنا ہے كہ اس طرح كى محفليں منعقد كرنا اور اس ميں شركت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ تفريح كى ايك قسم ہے، اور بعض لوگ كہتے ہيں كہ يہ حرام ہے، اس ليے آپ اس سلسلہ ميں فتوى دے كر عند اللہ ماجور ہوں، اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے، اور آپ سے اسلام كو نفع پہنچائے.
رات كو محفل موسيقى منعقد كرنا
سوال: 1050
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب افراد كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنے پوشيدہ اور ظاہرى امور ميں اللہ تعالى كے مراقبہ كا خيال كريں، انہيں علم ہونا چاہيے كہ اللہ تعالى پر زمين و آسمان كى كوئى چيز مخفى نہيں.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم زاد راہ حاصل كروں اور سب سے بہتر زاد راہ تقوى ہے، اور اے عقلمندو تم ميرا تقوى اختيار كرو.
يعنى اے عقل و دانش ركھنے اور زندہ دل ركھنے والو تم سب اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور اللہ تعالى كو راضى كرنے والے اعمال كرو جس كا نفع دنيا و آخرت ميں تمہيں ہى ملے گا، ليكن جو عقل و دانش نہيں ركھتے وہ لوگ اپنى عقلوں اور ہمت كو اللہ تعالى كے غضب والے كاموں ميں صرف كرتے ہيں.
سائل نے جن محفلوں كے متعلق دريافت كيا ہے جن ميں ہر جگہ سے فنكار اور موسيقار اور اداكار بلائے جاتے ہيں، جن ميں ٹكٹ اور بغير ٹكٹ داخلہ ملتا ہے، ان سب محافل ميں شريك ہونا، يا انہيں ديكھنا، يا اس ميں تعاون و تائيد كرنا، يہ سب كچھ حرام ہے.
كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ بغير كسى علم كے اللہ كى راہ سے لوگوں كو روكيں، اور اسے مذاق بنائيں، انہيں لوگوں كے ليے ذلت ناك عذاب ہے لقمان ( 6 )
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما قسم اٹھايا كرتے تھے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہے.
اور بلا شك و شبہ يہ لوگوں كو اللہ كى راہ سے روكنا، اور اوقات كو قتل اور ضائع كركے لوگوں كو اللہ كى راہ سے ہٹانا ہے.
ابو عامر اور ابن مالك اشعرى رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميرى امت ميں سے كچھ لوگ ايسے ہونگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے ”
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
زنا، ريشم، شراب، اور گانا بجانا حلال كرنے كا معنى يہ ہے كہ: اصل ميں يہ سب چيزيں حرام ہيں، اور كلمہ ” ليكونن ” يعنى ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے ” سے پتہ چلتا ہے كہ يہ چيز مستقل ميں ہوگى تو اس طرح معنى يہ ہوا كہ: اس امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو اپنے ليے زنا اور ريشم اور گانا بجانا حلال اور مباح كر لينگے.
انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفوعا ثابت ہے كہ:
” اس امت ميں خسف و قذف اور مسخ ہوگا، تو ايك شخص كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كب ہوگا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:
” جب شراب نوشى كى جانے لگے گى اور لوگ گانے والى لونڈياں ركھيں گے، اور گانا بجانا شروع كر دينگے ”
اسے ترمذى نے روايت كيا ہے.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ سب انجام اور سزائيں كسى حرام كام كى بنا پر ہى ہوتى ہيں، بلكہ كسى كبيرہ گناہ كى پاداش ميں دى جاتى ہيں، ولا حول و لاقوۃ الا باللہ.
متقدمين علماء كرام ـ مثلا امام احمد ـ نے بيان كيا ہے كہ آلات لہو ولعب يعنى گانے بجانے كے آلات مثلا گٹار اور بانسرى وغيرہ يہ سب كچھ حرام ہيں، تو اس دور ميں پائے جانے والےموسيقى كے آلات تو بدرجہ اولى حرام ہونگے كيونكہ يہ اس دور كے آلات سے زيادہ پرفتن ہيں.
اس بنا پر اس طرح كى موسيقى كى محافل سجانا حرام ہيں، ان محافل كو منعقد كرنے والوں كو اللہ سے ڈرتے ہوئے اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے اور اسى طرح بچوں كے سربراہان اور والدين كو بھى چاہيے كہ وہ اس طرح كى محفلوں ميں بچوں اور اپنے اہل و عيال كو مت لے جائيں، اور نہ ہى خود شريك ہوں.
انہيں يہ معلوم ہونا چاہيے كہ وہ ايسا كرنے سے گنہگار ہو رہے ہيں اور انہيں كل قيامت كے روز اس فعل كے متعلق جوابدہ بھى ہونا ہوگا، اور انہيں يہ بھى معلوم كرنا چاہيے كہ تفريح اور نفسى راحت صرف اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى اور اللہ كى كتاب قرآن مجيد اور سنت نبويہ كو حفظ كرنے اور اس پر عمل پيرا ہونے، اور روزہ ركھنے اور نماز كى پابندى كرنے اور حرمين شريفين كى زيارت كرنے، اور جھاد فى سبيل اللہ، اور اللہ تعالى كى دين كى نشرواشاعت كرنے، اور دوسرے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ہى ہے.
جيسا كہ نفس كو راحت اور تفريح ان امور سے حاصل ہوتى ہے جو مباح كام ہيں، مثلا تيراكى سيكھنا، اور نشانہ بازى كرنا، اور گھڑ سوارى كرنا، اور اسى طرح سمندر پر سوارى كرنا، اور پارك يا دوسرى تفريح گاہوں ميں جانے سے حاصل ہوتى ہے.
ليكن ان جگہوں ميں جانے ميں بھى اسلامى آداب كا خيال كرنا ہو گا اور اخلاق فاضلہ اپنانا ہونگے.
اللہ تعالى سب كو خير و بھلائى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہميں اپنى ناراضگى اور عذاب والے كام كرنے سے محفوظ ركھے.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنےوالا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ماخذ:
ماخوذ از: فتاوى الشيخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرين