ميں ايك غير مسلم ملك ميں تعليم كے ليے آيا ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ: اگر علم و ورع ميں مشہور كسى عالم دين كى رائے پر عمل كروں خاص كر عبادات كے مسائل ميں ـ ميرے خيال كے مطابق اس كے پاس دليل ہے اور يہ مسئلہ اساسى طور پر ميرے جيسے شخص كے ليے نماز جمع اور قصر كرنے كے مسئلہ ميں ہے ـ تو كيا مجھ پر گناہ ہو گا، اور كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟
اور كيا يہ دينى وسعت ميں شامل ہوتا ہے، اس كے ساتھ اس روايت سے استدلال كرنا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آسان ترين معاملہ اختيار كرتے تھے، جبكہ اس ميں كوئى گناہ نہ ہو، ميں بہت سارى مشكلات كا شكار ہوں جس نے تجربہ نہ كيا ہو وہ ان مشكلات كو نہيں جان سكتا، ليكن ـ اللہ اعلم ـ يہ رخصت صرف مشقت كى وجہ سے نہيں، بلكہ اللہ تعالى پسند كرتا ہے كہ اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے، برائے مہربانى آپ ميرے سوال كا جواب ديں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسے آپ كى نيكيوں ميں شامل كرے.
مقلد پر كوئى گناہ نہيں
سوال: 105721
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اہل علم ميں سے علم و امانت ميں معروف كى تقليد كرنے پر ـ جبكہ وہ حديث كے مخالف نہ ہو ـ كوئى گناہ نہيں، جبكہ وہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان پر عمل كر رہا ہو:
اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كر ليا كرو النحل ( 43 ).
عامى يعنى ان پڑھ شخص كى بنسبت عالم شخص ايك دليل كى طرح ہے، اس كے ليے واجب ہے كہ وہ عالم دين كو تلاش كرے اور اس كے فتوى پر چلے.
شاطبى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" مجتھدين كے فتاوى جات عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا ان پڑھ لوگوں كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تمہيں علم نہيں تو تم اہل علم سے دريافت كر ليا كرو .
اور مقلد شخص عالم نہيں، اس ليے اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقا اہل علم ہى احكام دين ميں مرجع ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائم مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائم مقام ہيں " انتہى
ديكھيں: الموافقات ( 4 / 292 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فتوى لينے والے شخص كو اگر كوئى حادثہ پيش آ جائے تو اسے علم و عدالت سے متصف شخص سے دريافت كرنا واجب ہے.
ابن عابدين كمال بن ھمام سے نقل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس پر اتفاق ہے كہ جو شخص علم و اجتھاد اور عادل ہونے ميں معروف ہو، يا جس كى طرف وہ يہ منصوب ديكھے، اور لوگ اس كى تعظيم كرتے ہوئے اس سے فتوى ليتے ہوں تو اس سے فتوى دريافت كرنا حلال ہے، اور جس كے متعلق اس كا گمان ہو كہ وہ مجتھد اور عادل نہيں تو ايسے شخص سے فتوى نہ لينے پر اتفاق ہے.
اور اگر مستفتى يعنى فتوى لينے والا شخص ايك سے زائد عالم دين پائے اور وہ سب عادل ہوں اور فتوى دينے كے اہل ہوں تو جمہور فقھاء كے ہاں فتوى لينے والے كو اختيار ہے وہ جس سے چاہے فتوى لے، اور جس سے چاہے سوال كر كے اس پر عمل كرے اور اس پر ضرورى نہيں كہ وہ ان ميں سے افضل كو تلاش كرتا پھرے تا كہ اس سے سوال دريافت كرے، بلكہ اس كے ليے جائز ہے كہ اگر چاہے تو ان ميں سے افضل سے سوال كر لے، اور اگر چاہے تو افضل كے ہوتے ہوئے مفضول سے سوال كر لے، اس كى دليل انہوں نے يہ دى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے پوچھ ليا كرو .
كيونكہ پہلے لوگ صحابہ كرام سے دريافت كيا كرتے تھے حالانكہ ان ميں افضل اور اكابر صحابہ بھى موجود تھے، اور ان سے سوال كرنا بھى ممكن تھا.
اگر فتوى لينے والا ايك سے زائد مفتيوں سے فتوى لے اور ان سب كے فتوى جات ايك جيسے ہى ہوں اگر وہ ان كے فتوى پر مطمئن ہو تو اسے اس پر عمل كرنا چاہيے، ليكن اگر مختلف ہوں تو فقھاء كے دو قول ہيں:
جمہور فقھاء جن ميں احناف مالكيہ اور بعض حنابلہ اور ابن سريج اور سمعانى اور غزالى شافعى كہتے ہيں كہ عامى شخص كو يہ اختيار نہيں كہ وہ جو چاہے اختيار كرے اور جسے چاہے چھوڑ دے، بلكہ اسے ترجيح كے اعتبار سے عمل كرنا چاہيے.
اور شافعيہ اور بعض حنابلہ كے ہاں صحيح اور اظہر يہ ہے كہ مختلف فتوى دينے والوں كے مختلف اقوال ميں عامى شخص كو اختيار جائز ہے، كيونكہ عامى كے ليے تقليد ہے، اور وہ جس مفتى كے فتوى پر عمل كريگا يہ حاصل ہو جائيگا " انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 32 / 47 – 49 ).
دوم:
سائل بھائى آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ اپنا مسئلہ كسى ايسے عالم كے سامنے ركھيں جو امانت و عدالت اور ثقاہت ميں مشہور ہو پھر آپ اس كا فتوى لے كر اس پر عمل كريں، رخصت اور آسان ترين فتوى تلاش كر كے اس پر عمل كرنا صرف ايك ہى صورت ميں جائز ہے:
وہ يہ كہ مفتيوں كا كسى ايسے فرعى اور اجتھادى مسئلہ ميں اختلاف ہو، جس كے متعلق كتاب و سنت ميں كوئى نصوص نہ ہوں جو كسى ايك قول كو راجح قرار ديتى ہوں، بلكہ اس ميں مرجع اور ترجيح صرف رائے اور اجتھاد ہو، تو اس صورت ميں اگر مسلمان شخص كو اس كى ضرورت پيش آئے تو اس كے رخصت پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ شرعى قاعدہ اور اصول ہے كہ:
" مشقت آسانى كو لاتى ہے "
لقاءات الباب المفتوح ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ كا قول ہے:
سوال:
كيا ايك سے زائد عالموں سے فتوى لينا جائز ہے ؟
اور كيا فتوى مختلف ہونے كى صورت ميں مستفتى آسان ترين يا احوط ترين فتوى پر عمل كر سكتا ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
جواب:
جب انسان كسى ثقہ اور متعبر عالم دين سے فتوى لے تو پھر اس كے ليے كسى اور عالم دين سے فتوى لينا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے دين كو كھيل بنانا اور رخصت تلاش كرنا ہے؛ وہ اس طرح كہ وہ فلان عالم دين سے دريافت كرتا ہے، اور اگر وہ فتوى اس كے مناسب نہيں تو كسى اور سے دريافت كرنا شروع كر دے، اور اگر اس كا جواب بھى اس كے مناسب نہ ہو تو كسى تيسرے سے دريافت كرنا شروع كر دے، اور پھر علماء كرام كا تو كہنا ہے كہ رخصتيں تلاش كرتے پھرنا فسق ہے.
ليكن بعض اوقات انسان كے پاس مثلا فلاں عالم دين كے علاوہ كوئى اور نہيں ہوتا، تو بطور ضرورت وہ اس سے دريافت كر لے، ليكن اس كى نيت ميں ہوتا ہے جب علم و عمل اور تقوى و دين ميں اس سے ثقہ اور معتبر عالم دين سے ملونگا تو اس سے دريافت كرونگا تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ پہلے عالم دين سے ضرورت كى بنا پر دريافت كر لے پھر اگر اس سے بہتر عالم دين پائے تو اس سے پوچھ لے.
اور اگر علماء كرام اسے مختلف فتوى ديں، يا پھر مثلا ان كى جو تقارير اور دروس سنتا ہے اس ميں اختلاف ہو تو جسے وہ دين اور علم ميں اقرب الى الحق ديكھے اس كى بات تسليم كر لے.
بعض علماء كا كہنا ہے: احتياط اور احوط كى پيروى كرے اور يہ شديد ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے: آسان ترين كى پيروى كرے.
اور يہى صحيح ہے؛ جب آپ كے پاس فتوے برابر ہوں تو ان ميں آسان ترين كى پيروى كر لو؛ كيونكہ اللہ كا دين آسانى اور سہولت پر مبنى ہے، نہ كہ شدت اور سختى پر، اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وصف بيان كرتے ہوئے كہتى ہيں:
" جب انہيں دو معاملوں ميں اختيار ديا جاتا تو وہ ان دونوں ميں سے آسان ترين كو اختيار كر ليتے جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا " انتہى
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح لقاء نمبر ( 46 ) سوال نمبر ( 2 ).
اس بنا پر آپ كے ليے رخصت والے قول پر دو شرطوں كے ساتھ عمل كرنا جائز ہے:
1 – اس نے سلف اور خلف علماء كرام ميں سے جمہور علماء كى مخالفت نہ كى ہو، بلا شك وشبہ وہ سب سے زيادہ تقوى و ورع اور علم ركھنے والے تھے جن كى اتباع لوگوں كو اپنے مذہب ميں كرنى چاہيے.
2 – دونوں قول كے مالك علماء كے دلائل مسئلہ ميں برابر ہوں، تو اس وقت آپ كے ليے آسان ترين قول لينا جائز ہے.
واللہ تعالى اعلم.
اس سلسلہ ميں ہمارى ويب سائٹ پر موجود سوال نمبر ( 9516 ) اور ( 22652 ) اور ( 30842 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات