ميں شادى شدہ ہوں بيوى كے موبائل پر آنے والى كالوں كے جواب ميں ميرا اور بيوى كا اختلاف ہوگيا، اور ميں نے اسے غصہ كى حالت ميں كہا: اگر تو نے اپنے موبائل ميں درج نمبر كے علاوہ كسى اجنبى نمبر كى كال سنى تو تجھے طلاق، اور مجھے ياد پڑتا ہے كہ ميں نے يہ بھى كہا تھا: ( اگر پوليس كا نمبر بھى ہو جس سے لوگ جاہل نہيں تم اس كا جواب بھى نہ دينا ) حقيقت ميں ميں وسوسہ كا شكار ہوں اس كى دليل يہ ہے كہ ميں ظہر يا عصر يا مغرب يا عشاء كى نماز ادا كرتا ہوں تو مجھے تيسرى يا چوتھى ركعت ميں شك ہونے لگتا ہے كہ كتنى ركعات ادا كى ہيں.
اور نماز كے بعد اذكار كى تعداد ميں بھى شك ہو جاتا ہے اور اسى طرح صبح اور شام كى دعاؤں ميں بھى، ليكن ميرى بيوى بہت حافظہ والى ہے اور وہ اچھى طرح ياد ركھتى ہے، وہ كہتى ہے ميں نے يہ پوليس والا نمبر ذكر نہيں كيا تھا.
بہر حال جب ميں بيوى كے كمرہ سے نكلا تو ميں نے اپنے دل ميں كہا: اے اللہ جو كچھ ميں نے كہا ہے اگر تو اس سے نكلنے كے ليے كوئى ومخرج ہے تو ميرا يہى مقصد اور ارادہ ہے ميں نے يہ الفاظ زبان سے ادا نہيں كيے تھے، پھر بيوى نے كسى بھى غير معروف نمبر والى كال موصول كرنا بند كر دى، حتى كہ ميں نے كئى بار كسى اور موبائل نمبر سے فون كيا تو اس نے كال نہيں سنى كہ كہيں اسے طلاق نہ ہو جائے، اور اس نے وہ نمبر مجھے دكھايا، جب اس نے مجھے وہ نمبر دكھايا تو ميں نے كہا يہ تو ميرى بہن كا نمبر ہے، تو اس نے وہ نمبر اپنے ذہن ميں محفوظ كر ليا ليكن موبائل ميں فيڈ نہ كيا، ميرى بہن نے دوبارہ ميرى بيوى كو فون كيا تو اسنے يہ يقين كر لينے كے بعد كہ يہ ميرى بہن كا فون ہے جواب ديا.
سوال يہ ہے كہ: كيا اس حالت ميں طلاق واقع ہو جائيگى كيونكہ وہ نمبر موبائل ميں حفظ نہ تھا، يا كہ طلاق واقع نہيں ہو گى كيونكہ اس نے پہلى بار تو اس نمبر كى كال كا جواب نہيں ديا تھا، ليكن جب ميں نے اسے بتايا كہ يہ ميرى بہن كا نمبر ہے تو تو اسے ياد كر لينے كے بعد اس كى كال وصول كى.
كيونكہ موبائل ميں فيڈ نمبر والى كال سننے سے مقصد تو يہ تھا كہ مكمل يقين ہو جائے اور كسى غلط كال سے محفوظ رہا جائے تو يہ چيز اس نمبر كى كال سننے سے قبل اپنے ذہن ميں اس نمبر كو ياد كرنے سے حاصل ہوجاتى ہے، تو اس طرح موبائل ميں حفظ نمبر والى كال سننےكا مقصد اپنے ذہن ميں ياد نمبر والى كال سننے سے پورا ہو جاتا ہے، كيا طلاق تو واقع نہيں ہوئى ؟
بيوى كو كہا: اگر تم نے كسى غير معروف نمبر والى كال سنى تو تجھے طلاق
سوال: 106232
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
شرط پر معلق طلاق مثلا آپ نے اپنى بيوى سے كہا: اگر تو نے موبائل ميں محفوظ نمبر كےعلاوہ كسى اجنبى نمبر والى كال سنى اور جواب ديا تو تجھے طلاق . اس طرح طلاق ہونے كے متعلق اہل علم كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے:
جمہور فقھاء كرام كے ہاں شرط حاصل ہو جائے جس پر طلاق كو معلق كيا گيا ہے تو طلاق واقع ہو جائيگى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں شيخ الاسلام ابن تيميہ وغيرہ كا بھى يہى اختيار ہے كہ اس معلق كردہ طلاق ميں تفصيل ہے:
اور يہ قائل كى نيت پر منحصر ہوگا: اگر تو اس نے اس سے قسم والا ارادہ كيا يعنى كسى چيز پر ابھارنا يا منع كرنا يا تصديق كرنا يا جھٹلانا تو اس كا حكم قسم والا ہوگا، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، اور قسم ٹوٹنے كى صورت ميں اس پر قسم كا كفارہ لازم ہے.
اور اگر اس سے قائل كا مقصد طلاق واقع كرنا ہے تو شرط پورى ہونے كى صورت ميں اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى اور اس كى نيت كا معاملہ تو اللہ ہى جانتا ہے جس پر كوئى بھى چيز مخفى نہيں، اس ليے مسلمان شخص كو اپنے پروردگار پر حيلہ سازى سے اجتناب كرنا چاہيے، اور اپنے آپ كو دھوكہ نہ دے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: تم ميرے ساتھ كھڑى ہو جاؤ وگرنہ طلاق، تو بيوى اس كے ساتھ كھڑى نہ ہوئى، كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” اگر آپ كا اس كلام سے مقصد بيوى كو طلاق دينا نہ تھا بلكہ اسے اپنے ساتھ جانے پر ابھارنا اور تيار كرنا تھا، تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوئى، بلكہ علماء كے صحيح قول كے مطابق اس ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا.
اور اگر آپ كا ارادہ طلاق دينے كا تھا اور اس نے آپ كى بات نہيں مانى تو اس سے ايك طلاق واقع ہو گئى ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
دوم:
جس كام كے ہونے پر آپ نے طلاق معلق كى تھى اور اس ميں آپ كا قصد طلاق دينے كا تھا، اور وہ كسى بھى غير معروف نمبر كى كال وصول كرنے اور جواب دينا تھا، اور آپ كى نيت يہ تھى كہ اسے موبائل ميں فيڈ نمبر كے علاوہ ہر دوسرے نمبر كى كال كا جواب دينے سے روكا جا سكے، تو پھر موبائل ميں حفظ نمبر كے علاوہ كسى بھى نمبر كا جواب دينے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.
اور اگر آپ كى نيت اور مراد يہ تھى كہ اسے ان نمبروں كى كال سننے سے منع كيا جائے جسے آپ نہيں جانتے اور جن پر آپ كو بھروسہ نہيں كيونكہ اس سے غلط كام ہوتے ہيں تو پھر آپ كى بہن كا فون سننے سے اسے طلاق واقع نہيں ہوگى.
اس ليے آپ اس مسئلہ ميں اپنى اصل نيت اور مراد ياد كريں، يعنى آپ نے طلاق كو كس شرط پر معلق كيا تھا، كيا آپ اس سے طلاق چاہتے تھے، يا كہ صرف اسے روكا چاہتے تھے، پھر آپ يہ بھى ياد كريں كہ آپ كى اپنى بيوى كو كس چيز سے اور كونسے نمبر سے روكنے كى نيت اور مراد تھى.
اگر آپ نے نيت طلاق واقع كرنے كى تھى اور آپ نے اسے بيوى كے موبائل ميں درج نمبر كے علاوہ كسى دوسرے نمبر سے روكنا چاہا تو اسے ايك طلاق ہوئى ہے، اور آپ عدت كے دوران اس سے رجوع كر سكتے ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ طلاق تيسرى نہ ہو.
اور اگر آپ كى نيت طلاق دينے كى نہيں تھى، بلكہ آپ اسے موبائل ميں درج نمبر كے علاوہ كسى اور نمبر كى كال وصول كرنے اور سننے سے روكنا چاہتے تھے تو آپ پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے.
اور اگر آپ كى نيت يہ تھى كہ اسے اس نمبر كى كال وصول كرنے سے منع كريں جسے آپ نہيں جانتے تو پھر آپ پر كچھ لازم نہيں آتا.
ہم آپ كو وصيت كرتے ہيں كہ كسى بھى حالت ميں آپ طلاق كے الفاظ مت نكاليں اور زبان پر نہ لائيں، كيونكہ طلاق دھمكى دينے اور خوفزدہ كرنے كے ليے مشروع نہيں كى گئى، عقلمند كو چاہيے كہ وہ اس طرح كے الفاظ انتہائى اور آخرى حل كى شكل ميں اپنى زبان سے نكالے، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے ندامت اٹھانى پڑے اور اس وقت نادم ہونے كا كوئى فائدہ ہى نہ ہو.د
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے وہ آپ كى راہنمائى فرمائے اور صحيح عمل كرنے كى توفيق بخشے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب