ايك ستائيس سالہ عورت كے ليے ايك شخص كا رشتہ آيا اور لڑكى كے گھر والوں نے صرف تعليمى فرق كى بنا پر يہ رشتہ رد كر ديا، يہ علم ميں رہے كہ عورت اس رشتہ پر موافق تھى، چنانچہ مرد اور عورت نے عہد كيا كہ وہ گھر والوں كو راضى كرنے كى كوشش كرينگے، اور مرد اپنا تعليمى معيار بہتر بنائيگا چار برس تك مرد اور عورت موافقت حاصل كرنے كے ليے ايك دوسرے كى حمايت كرتے رہے، كيونكہ ان ميں محبت بھى تھى اور انہوں نے اللہ كے سامنے وعدہ كر ركھا تھا كہ وہ كبھى عليحدہ نہيں ہونگے.
گھر والوں نے موافقت كر لى، اور والدين اور سارے خاندان اور گواہوں كى موجودگى ميں عقد نكاح ہوا، ليكن پچھلے چار برسوں ميں مرد و عورت كے مابين حرام تعلقات قائم ہوتے رہے، الحمد للہ شادى كے بعد وہ صحيح ہو گئے اور اچھى زندگى بسر كرنے لگے وہ چاہتے ہيں كہ پہلى زندگى كو ياد نہ كريں، ان كى اولاد بھى ہوئى اور وہ ايك اچھا گھرانہ بن كر رہنے لگے، اور دونوں ہى ہر اس كام سے دور رہنے لگے جو اللہ كى ناراضگى كا باعث ہو.
اللہ نے ان كے ليے حج كے ليے جانا بھى ميسر كر ديا اور عمرہ بھى كئى بار ادا كر چكے ہيں، اللہ كے فضل سے ان ميں عظيم محبت ہے دس برس كے بعد انہوں نے ريڈيو پر ايك مولانا صاحب كا فتوى سنا كہ اگر كسى كے مابين حرام تعلقات ہوں تو شادى سے قبل اسے توبہ كرنا ضرورى ہے وگرنہ نكاح باطل ہے.
تو يہاں سے شكوك وشبہات پيدا ہونے شروع ہوئے، كہ آيا يہ ان پر بھى لاگو ہوتا ہے، يعنى كيا عقد نكاح فسخ ہوا ہے يا نہيں ؟
اور پھر اس طويل مدت كے بعد جبكہ عقد نكاح سے ليكر اب تك انہوں نے اللہ كے حق ميں كوئى كوتاہى نہيں كى، اور وہ اپنى زندگى كو نيك و صالح بنانے كى كوشش كر رہے ہيں، اور نہ ہى ان دونوں كى زندگى ميں كوئى اور شخص تھا، اس طويل مدت كو مدنظر ركھتے ہوئے وہ اپنے معاملہ ميں حيران و پريشان ہيں، كہ آيا لمس اور ہاتھ لگانا تعزير كا باعث ہے يا حد لگتى ہے ليكن يہ بات تو يقينى ہے كہ مكمل دخول تو شادى كے بعد ہى ہوا ہے، يعنى انہيں يہ يقين نہيں كہ زنا كا ارتكاب ہوا كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں، تو كيا وہ دونوں زانى ہيں ؟
اور سورۃ النور ميں بيان كردہ حكم ان پر لاگو ہوتا ہے كہ اس آيت كا معنى اور تفسير مختلف بيان كى ہے كہ يہ آيت ان پر دلالت كرتى ہے جو يہ كام مستقل كريں ؟
مختصر طور پر مشكل اور پريشانى بيان كى گئى ہے تو كيا عقد فسخ ہوا ہے يا نہيں ؟ اور جب يہ چيز بغير علم كے ہوئى تو شادى سے قبل كيا مطلوب تھا، كيا عدم معرف پر وہ قابل ملامت ٹھريں گے ؟
اور يہ بھى عورت كو شادى كے بعد بھى اور شادى سے قبل بھى حيض آيا تھا، ليكن اس كے وقت كے متعلق اسے يقين نہيں كہ آيا شادى سے طويل عرصہ قبل يا تھوڑى دير قبل، ايك چيز باقى ہے كہ اگر دونوں ميں سے كسى ايك نے سولہ برس كى عمر ميں اپنے سے چھوٹى عمر والے كے ساتھ يہ غلط كام كر ليا اور كئى برس اس كام سے رك گيا اور كبھى سوچا بھى نہيں كہ وہ ايسا كريگا حتى كہ اس شخص سے ملا جس سے شادى ہوئى تو كيا اس موجودہ مشكل كے حكم ميں يہ اثراندازى ہوگا، يا كہ وہ اسے پردہ ميں ہى رہنے دے اور ظاہر نہ كرے ؟ برائے مہربانى ہميں اس مشكل كو حل كرنے كے متعلق معلومات فراہم كريں، اس مشكل نے تو ہميں اللہ كى ملاقات سے دور كر ديا ہے اور اللہ كے سامنے ہمارے چہرے معاصى و گناہ كے ساتھ ذليل ہو چكے ہيں، ليكن دل نے وہ سب كچھ جان ليا ہے جو اللہ نے حرام كيا ہے، اور آخرت كى جانب اپنى راہ كو صحيح اور درست كر ليا ہے.
ہم يہ معلوم كرنا چاہتے ہيں كہ آيا اب ان كى زندگى حلال ہے يا حرام؛ كيونكہ جب سے ان كو اس معاملے كا علم ہوا ہے ان كى زندگى وسوسوں كے ساتھ اجيرن بن كر رہ گئى ہے، حالانكہ ہم بہت اچھى اور خوش كن زندگى بسر كر رہے تھے. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
غير شرعى تعلقات كے نتيجہ ميں ہونے والى شادى كے اثرات
سوال: 106288
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جو كچھ آپ نے سنا ہے كہ مسلمان شخص كے ليے زانيہ عورت سے شادى كرنا حلال نہيں، اور نہ ہى مسلمان عورت كا زانى مرد سے ليكن اگر وہ دونوں توبہ كر ليں تو پھر شادى ہو سكتى ہے، اور شادى سے قبل عورت ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كريگى، اس كى تفصيل ہم بيان كر چكے ہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 87894 ) اور ( 50508) اور ( 85335 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور ہم دونوں سے دو مسئلوں كى تحقيق كرنا چاہتے ہيں جن پر جواب مبنى ہے.
اول:
كيا ان دونوں ميں زنا ہوا ہے ؟ اس ہمارى مراد يہ ہے كہ آيا دخول ہوا ہے ، صرف لمس اور شہوت زنى نہيں، چاہے انزال بھى ہوا ہو.
دوم:
كيا عقد نكاح سے قبل انہوں نے توبہ كر لى تھى ؟
ان دونوں مسئلوں كى روشنى ميں ہم آپ كے سوال كا جواب دے سكيں گے:
اگر تو زنا ہوا ہے اور اس سے توبہ نہيں كى گئى تو انہوں نے جو كچھ سنا ہے وہ ان پر منطبق اور لاگو ہوتا ہے.
اور اگر ان كے درميان زنا ہوا ہے اور وہ دونوں اس پر نادم ہوئے اور توبہ كر لى تو ان كا نكاح صحيح ہے، اور اس ميں شك كرے كو كوئى ضرورت نہيں.
اور اگر ان كے درميان زنا نہيں ہوا، بلكہ ان كا آپس ميں تعلق لمس اور مباشرت تك ہى رہا، اور دخول نہيں ہوا تو انہيں زانى نہيں كہا جائيگا، چاہے انزال ہوا ہو، ليكن انہيں ان افعال پر گناہ ضرور ہے، ليكن اسے زنا اس وقت ہى كہا جائيگا جب شرمگاہ عورت كى شرمگاہ ميں داخل ہو جائے.
اس بنا پر:
1 ـ زنا كا ارتكاب نہ ہونا، يا پھر زنا كے بعد توبہ كر لينے كے بعد كسى چيز كى ضرورت نہيں رہتى، بلكہ وہ اپنى شادى كى زندگى جارى ركھيں، اور انہيں كثرت سے اعمال صالحہ كرنے چاہيں.
2 ـ اور اگر ان كے درميان زنا ہوا ہو اور عورت كو شادى سے پہلے حيض نہيں آيا: تو اس طرح اس نے استبراء رحم سے قبل شادى كر لى، اور يہ نكاح كو فسخ كرنے كا موجب بنتى ہے.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" توبہ كرنے سے قبل زانيہ عورت سے شادى كرنا جائز نہيں .. اور اگر آدمى اس سے شادى كرنا چاہے تو اس پر واجب ہے كہ وہ عقد نكاح سے قبل عورت كا ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كرائے، اور اگر اس كا حمل واضح ہو جائے تو اس كے ساتھ نكاح كرنا جائز نہيں حتى كہ وہ حمل وضع كر دے"
ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے بھى اسى طرح منقول ہے جيسا كہ ان كے فتاوى جات ميں درج ہے>
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 383 – 384 ).
3 ـ اور اگر ان دونوں كے مابين زنا ہوا اور توبہ نہيں كى تو ان كو چاہيے كہ نكاح فسخ كر ديں، اور ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كريں، اور وہ نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كر سكتا ہے.
ہم نے جس جواب كا مطالعہ كرنا كا كہا ہے اس ميں ہم نے يہ بيان كيا ہے كہ:
" جو شخص اس عمل ميں متبلا ہو اور توبہ سے قبل نكاح كر ليا تو اسے اللہ كے ہاں توبہ كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو، اور عزم كرے كہ آئندہ اس گناہ كى طرف نہيں لوٹےگا، پھر وہ تجديد نكاح كرے " انتہى.
ـ اور اگر اس شادى سے آپ كى اولاد ہے تو يہ اپنے باپ كى طرف منسوب ہونگے؛ كيونكہ جو حاصل ہوا وہ عقد شبہ ہے، اور وہ عقد كے حرام ہونے كا علم نہيں ركھتا تھا ـ اگر زنا ہوا اور توبہ نہيں ہوئى ـ يہ اس كے برخلاف ہے جو زنا سے پيدا ہو كيونكہ زنا سے پيدا شدہ بچے كو زانى كى طرف منسوب نہيں كيا جائيگا، بلكہ وہ اپنى ماں كى جانب منسوب ہونگے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" علماء كا صحيح قول يہ ہے كہ: بچے كا نسب وطئ كرنے والے كے ليے ثابت نہيں ہوگا، ليكن اگر وطئ صحيح نكاح ميں ہوئى ہو، يا پھر فاسد نكاح يا نكاح شبہ ميں، يا ملك يمين ميں يا شبہ ملك يمين ميں، تو اس سے نسب ثابت ہوگا اور اسے وطئ كرنے والے كى جانب منسوب كيا جائيگا، اور وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے.
ليكن اگر وطئ زنا ميں ہوئى ہو تو اس سے پيدا شدہ بچہ زانى كى طرف منسوب نہيں ہوگا، اور نہ ہے اس سے اس كا نسب ثابت ہوگا، اس بنا پر وہ اس كا وارث نہيں ہوگا.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 387 ).
سوال پر جو بھى غور كريگا اسے معلوم ہوگا كہ سائل كى حالت واضح نہيں، اس ليے معلوم نہيں كہ آيا زنا ہوا ہے يا نہيں اور يہ بھى معلوم نہيں كہ توبہ كى گئى يا نہيں، اور يہ بھى معلوم نہيں كہ آيا نكاح سے قبل عورت كو حيض آيا يا نہيں، يہ سب كچھ جواب پر مؤثر ہے.
ہم ہر طرح سے جواب بيان كر ديا ہے، كاش يہ سوال اہل علم سے بلاواسطہ كيا جاتا تا كہ آدمى حقيقت حال سے واقف ہوتا، يا پھر سوال كے پورے متعلقات كى وضاحت ہو جاتى، اميد ہے جواب سمجھ ميں آ گيا ہوگا، اور استفسار اور وضاحت سے مستغنى ہوگا.
سائل نے سوال كرتے ہوئے كہا ہے كہ:
" ليكن يقينى بات ہے كہ مكمل دخول تو شادى كے بعد ہوا يعنى انہيں يہ يقين نہيں كہ زنا كے وقوع ميں شك ہے، كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى "
اگر تو يہ بات حق ہے جيسا كہ كہہ رہے ہيں كہ زنا كا حصول قطعى نہيں، اور يقينى بات يہى ہے كہ دخول كامل تو شادى كے بعد ہوا ہے، تو اس كا جواب واضح ہے جو ہم بيان كر چكے ہيں كہ يہ چيز صحت نكاح اور عقد ميں كوئى اثرانداز نہيں ہو گى، اور نہ ہى فسخ كى محتاج ہے، اور نہ ہى عقد پر.
اور ان دونوں كى شادى كے معاملہ وسوسہ كا دروازہ كھولنے كى ضرورت ہے، بلكہ ان دونوں كو اپنى باقى عمر ميں اللہ تعالى كا تقوى اختيار كريں، اور نيك و صالح اعمال كثرت سے كرے اميد ہے كہ اللہ سبحا نہ و تعالى ان دونوں كى توبہ قبول كرے اور ان كےگناہوں كو نيكيوں ميں بدل دے، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے.
واللہ اعلم
.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات