700 كا ہندسہ ڈائل كر كے انعامى مقابلوں ميں حصہ لينے كا حكم كيا ہے، اس كال كى قيمت عام كال سے زيادہ وصول كى جاتى ہے، اور اگر يہ انعام حاصل ہو جائے تو اس كا كيا جائے ؟
700 كا ہندسہ ڈائل كر كے مقابلہ ميں حصہ لينا
سوال: 106601
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
700 كا ہندسہ ڈائل كرنے كے طريقہ سے جو انعامى مقابلہ بھى منعقد كيا جاتا ہے وہ صريحا قمار بازى اور جوا ہے اور يہ اس جوئے كى ايك جديد صورت ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں حرام قرار ديتے ہوئے شراب كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جو سارى برائيوں كى جڑ ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اللہ سبحانہ و تعالى نے جوے اور قمار بازى كو بتوں، پانسے كے تيروں اور شراب كے ساتھ ملا كر ذكر كيا اور يہ بتايا ہے كہ يہ چاروں اشياء شيطانى عمل ہيں، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ان سے اجتناب كرنے كا حكم ديا اور كاميابى و نجات كو ان اشياء سے اجتناب كے ساتھ معلق كيا ہے.
پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ان وجوہات پر متنبہ كيا ہے جو خرابى پيدا كرتى ہيں اور اس ميں حرمت كا تقاضہ ركھتى ہيں، اور وہ يہ ہيں:
ان اشياء سے اجتناب نہ كرنے والے اور ان چاروں كے رسيا لوگوں كےمابين شيطان حسد و بغض اور عداوت و دشمنى ڈال ديتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روكتى ہيں ” انتہى.
ديكھيں: الفروسيۃ ( 308 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تو اس كے قائل ہيں كہ جوے كا فساد و خرابى تو سود سے بھى بڑى ہے، اس كى بيان كرتے ہيں كہتے ہيں:
” تو ظاہر يہ ہوا كہ ( جوا ) دو خرابيوں پر مشتمل ہے: ايك تو مال كا فساد ہے وہ اس طرح كہ باطل طريقہ سے مال كھايا جاتا ہے، اور عمل كى بھى خرابى ہے، وہ يہ كہ اس ميں مال اور دل اور عقل كى خرابياں پائى جاتى ہيں، اور اس كے ساتھ ايك دوسرے كے خلاف عداوت بھى، يہ ايسى چيزيں ہيں جن سے عليحدہ عليحدہ منع كيا گيا ہے، مطلق طور پر حرام اور باطل طريقہ سے مال كھانا جائز نہيں، چاہے وہ مال جوے سے حاصل كردہ نہ بھى ہو مثلا سودى مال.
اور ہر اس چيز سے منع كيا گيا ہے جو اللہ كے ذكر اور نماز سے روكے، اور ايك دوسرے كے مابين بغض و عداوت اور دشمنى پيدا كرے، چاہے وہ مال كھائے بغير بھى ہو، اس ليے جب حرمت كے عظيم اسباب جمع ہو جائيں تو پھر جوا سود سے بھى زيادہ گناہ ہو گا، اسى ليے اسے سود سے بھى قبل حرام كيا گيا ہے….
جوے پر معاونت كرنا بالكل اسىطرح ہے جس طرح شراب پر معاونت كرنا ہے، كيونكہ يہ گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى پر معاونت ہے، اور جس طرح شراب كى خريد و فروخت كر كے، يا شراب كشيد كر كے، يا پھر شراب پلا كر معاونت كرنا حرام ہے؛ تو اسى طرح جوے پر بھى معاونت كرنا حرام ہے، مثلا جوے كے آلات فروخت كرنا، اور اجرت پر دينا؛ بلكہ صرف جواريوں كے پاس جانا اور وہاں ٹھرنا بالكل اسى طرح ہے جس طرح شراب نوشى كرنے والوں كے پاس جانا جائز نہيں… ” انتہى مختصرا
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 237 ).
حقيقت ميں جوا يہ ہے كہ خطرے كى راہ ميں مال دينا، يا تو ادا كردہ مال سے زيادہ مال حاصل ہو، يا پھر جو مال ادا كيا ہے اس كا نقصان ہو اور خسارہ اٹھائے.
.
الماوردى رحمہ اللہ جوے كے متعلق كہتے ہيں:
جوا يہ ہے كہ جس ميں داخل ہونے والا كچھ لينے والا بن جائيگا اگر اس نے ليا، يا پھر نقصان اٹھانے والا ہو گا اگر اس نے ديا ” انتہى
ديكھيں: الحاوى الكبير ( 15 / 192 ).
ان انعامى مقابلوں ميں بھى يہى كچھ ہوتا ہے، اس نمبر پر كال كرنے والا يا تو كال كرنے كى قيمت بھى كھو بيٹھتا ہے، يا پھر وہ اس انعامى مقابلہ ميں كامياب ہونے كى صورت ميں كال كى قيمت سے زيادہ مبلغ حاصل كر لےگا.
اور جو ادارہ يا كميٹى يہ ( قمار بازى والے ) انعامى مقابلے منعقد كراتے ہيں، اور انعامى مقابلوں ميں شريك ہونے والوں كى اميدوں اور ان كے سپنوں كى تجارت كرتے اور انہيں دھوكہ ديتے ہيں، ان كے ذمہ دو قسم كے گناہ ہيں:
ايك گناہ تو برائى كو پھلانے اور اس كى دعوت دينے كا ہے.
اور دوسرا گناہ لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال كھانا ہے، اور جو كوئى بھى اس انعامى مقابلے ميں كچھ حاصل كرتا ہے وہ حرام ہے، اور ہر حرام پر پلنے والا جسم اور حرام سے تيار كردہ گوشت كے ليے آگ زيادہ حق ركھتى ہے، اس ليے مسلمان شخص كو اللہ تعالى كا خوف اور اس كا ڈر ركھتے ہوئے تقوى اختيار كرتے ہوئے اس طرح كے انعامى مقابلوں ميں شريك ہونے سے اجتناب كرنا چاہيے.
اور جس نے بھى اس طرح كے مقابلوں ميں كوئى انعام حاصل كيا اسے اس انعام كو نيكى كے كام ميں صرف كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كر لينا چاہيے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ان آخرى ايام ميں سڑكوں اور ڈيلى اخبارات ميں اعلانات كيے جا رہے ہيں جن ميں 700 نمبر پر كال كرنے كى ترغيب دى جاتى ہے جو كچھ مخصوص كمپنيوں نے مقرر كر ركھا ہے، اور كال كرنے والا كسى دوسرے شخص كو كوئى گانا ہديہ بھيج سكتا ہے، يا پھر اس نمبر پر كال كرنے والا انعامى مقابلے ميں شريك ہو سكتا ہے.
يہ علم ميں رہے كہ اس نمبر پر كال كرنے والے كو ٹيلى فون بل ميں اس كال كى قيمت بہت زيادہ ادا كرنا پڑتى ہے اور بعض اوقات تو پانچ سے دس ريال فى منٹ بھى ہوتے ہيں اور انعامى مقابلہ كا سوال حل كرنے كے ليے كئى منٹ تك كال كرنا پڑتى ہے، سوال يہ ہے كہ:
اس طرح كى نئى سروس ميں شركت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
گانے سننے يا كسى دوسرے كو ہديہ ارسال كرنے كے ليے كال كرنا جائز نہيں، كيونكہ گانے سننا اور حرام ہے، اس ليے كہ اس ميں فتنہ و فساد اور اللہ كى راہ سے روكنا پايا جاتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور بعض لوگ ايسے بھى ہيں جو لغو باتوں كو مول ليتے ہيں كہ بے علمى كے ساتھ لوگوں كو اللہ كى راہ سے بہكائيں اور اسے ہنسى بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے رسوا كرنے والا عذاب ہے لقمان ( 6 ).
اور لہو الحديث: يعنى لغو باتيں يہ گانا بجانا ہيں، جيسا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما وغيرہ بيان كرتے ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے ”
المعازف: آلات لہو يعنى ہر قسم كے گانے بجانے كے آلات كو كہتے ہيں.
يستحلون: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان اس كى حرمت پر دلالت كرتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے زنا اور شراب كے ساتھ ملايا ہے، اور بالاجماع يہ دونوں حرام ہيں، اسى طرح ريشم بھى مردوں كے ليے حرام ہے.
تو يہ گانے بجانے اور اس كےآلات كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اس ليے كمپنى كو اس اعلان سے منع كرنا واجب ہے، اور اس برائى كا انكار كرنا ضرورى ہے، كيونكہ يہ باطل كى دعوت، اور لوگوں كےمابين برائى كى اشاعت، اور على الاعلانيہ برائى كرنا ہے، اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كى دعا ہے.
اور اسى طرح مذكورہ انعامى مقابلوں ميں شريك ہونا بھى جائز نہيں، كيونكہ يہ قمار بازى اور جوا اور لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال ہڑپ كرنا ہے.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان يہ ہے:
” انعامى مقابلہ صرف اونٹ گھوڑے اور تيراندازى كے علاوہ كسى اور ميں نہيں ”
السبق: كا معنى يہ ہے كہ مقابلہ ميں انعام لينا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس حديث ميں اس سے منع فرمايا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے ” انتہى.
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ.
الشيخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الغديان.
الشيخ صالح بن فوزان الفوزان.
الشيخ احمد بن على سبر المباركى.
الشيخ عبد اللہ بن على الركبان.
الشيخ عبد اللہ بن محمد المطلق.
النصل: تير كو كہتے ہيں.
اور الخف: سے اونٹ مراد ہے.
اور الحافر سے گھوڑا مراد ہے.
بعض اہل علم نے ان تين كے ساتھ ہر وہ چيز بھى ملحق كى ہے جو جھاد فى سبيل اللہ اور نشر دين ميں معاون ہو مثلا قرآن مجيد اور حفظ حديث اور فقہ كے انعامى مقابلے چنانچہ ان ميں انعامات دينا جائز ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب