داؤن لود کریں
0 / 0
10,04423/10/2007

سر كا كچھ حصہ مونڈنے كا حكم

سوال: 106810

قرع يعنى سر كا كچھ حصہ مونڈنے اور كچھ كو چھوڑنے كا حكم كيا ہے، كيا يہ مكروہ ہے ؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

القزع: يہ ہے كہ سر كا كچھ حصہ مونڈ ديا جائے، اور كچھ چھوڑ ديا جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" القزع يہ ہے كہ سر كا كچھ حصہ مونڈ ديا جائے، اور كچھ حصہ چھوڑ ديا جائے، اور اس كى كئى انواع ہيں:

پہلى قسم:

بغيركسى ترتيب كے مونڈا جائے، سر كے دائيں، بائيں، اور پيشانى اور گدى سے مونڈا جائے، يعنى سر كى متفرق جگہوں سے بال مونڈے جائيں، اور باقى چھوڑ ديے جائيں.

دوسرى قسم:

سر كا وسط مونڈ ديا جائے، اور دونوں جانب چھوڑ دى جائيں.

تيسرى قسم:

دونوں طرف سے مونڈ ديا جا ئے اور سر كا وسط چھوڑ ديا جائے.

چوتھى قسم:

صرف پيشانى سے بال مونڈے جائيں، اور باقى چھوڑ ديے جائيں" انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 167 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے القزع سے منع فرمايا ہے، چنانچہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں درج ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے القزع سےمنع فرمايا "

نافع سے عرض كيا گيا كہ: القزع كيا ہے ؟

تو انہوں نے جواب ديا:

" كہ بچے كے سر كا كچھ حصہ مونڈ ديا جائے، اور كچھ حصہ نہ مونڈا جائے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5921 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2120 ).

امام احمد رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچے كو ديكھا كہ اس كے كچھ بال منڈے ہوئے تھے، اور بعض چھوڑے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" يا تو سارے مونڈ دو، يا پھر سارے ركھ لو "

مسند احمد حديث نمبر ( 5583 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1123 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

ان احاديث ميں القزع يعنى سر كا كچھ حصہ مونڈنے اور كچھ چھوڑ دينے كى نہى وارد ہے، اور يہ نہى كراہت پر محمول ہے نہ كہ تحريم پر.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" القزع مكروہ ہے، اور قزع يہ ہے كہ سر كا كچھ حصہ مونڈ ديا جائے اور كچھ چھوڑ ديا جائے، اس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے القزع سےمنع فرمايا " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 347 ).

اور " مطالب اولى النھى " كے مصنف كہتے ہيں:

" اور القزع مكروہ ہے، قزع يہ ہے كہ سر كا كچھ حصہ مونڈ ديا جائے اور كچھ حصہ چھوڑ ديا جائے " انتہى.

اس بنا پر القزع مكروہ ہوگا، ليكن اگر كسى نے يہ عمل كفار يا فاسق و فاجر قسم كے لوگوں كى مشابہت ميں كيا تو پھر اس حالت ميں يہ حرام ہو گا مكروہ نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" القزع مكروہ ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچے كو ديكھا كہ اس كے سر كے كچھ بال مونڈے ہوئے ہيں، اور كچھ چھوڑے ہوئے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس سےمنع كرتے ہوئے فرمايا:

" يا تو سارے مونڈ دو يا پھر سارے چھوڑ دو "

ليكن اگر اس ميں كفار كے ساتھ مشابہت ہو تو يہ حرام ہے، كيونكہ كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنا حرام ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سےمشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 167 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android
at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android