میں انجنیئرنگ کالج کی طالبہ ہوں میری عمر 20 سال ہے، میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلیے گرمی کی چھٹیوں میں ایک لائبریری میں دستاویزات کی فوٹو کاپی کا کام کرتی ہوں، تو کیا اس سے مجھے گناہ ہو گا؟ واضح رہے کہ میں کام کے دوران نقاب لیکر رکھتی ہوں، اور مجھے بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے کام کرنے کی وجہ سے کوئی دیندار رشتہ نہیں آتا۔
خاتون کیلیے گھر سے باہر ملازمت کرنے کے اصول
سوال: 106815
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصولی طور پر تو یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں ہی رہے اور گھر سے باہر ضرورت کے وقت ہی جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو، پہلے دورِ جاہلیت کی طرح غیروں کے سامنے اظہار زینت مت کرو۔[الأحزاب: 33]
یہ حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کیلیے ہے لیکن تمام مومنوں کی بیویاں بھی اس حکم میں ان کے ماتحت ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو مخاطب اس لیے کیا ہے کہ ان کی شان اور قدر و منزلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بہت بلند ہے اور تمام امہات المؤمنین دیگر مومنوں کی بیویوں کیلیے نمونہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (خاتون چھپانے کی چیز ہے، جب خاتون گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاڑتا ہے، اور عورت اللہ تعالی کے قریب تر اس وقت ہوتی ہے جب وہ گھر کے اندرونی حصے میں ہو)
اس روایت کو ابن حبان اور ابن خزیمہ نے نقل کیا ہے ، اور البانی نے سلسلہ صحیحہ میں (2688) اسے صحیح قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے متعلق فرمایا: (ان کے گھر ان کیلیے بہتر ہیں) ابو داود: (567)اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (6742) کا مطالعہ کریں
دوم:
عورت کیلیے ملازمت کی خاطر گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اگر یہ موجود ہوں تو عورت کیلیے کام کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہو گا، جیسے:
– عورت کو کام کرنے کی ضرورت ہو،اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے ملازمت کو آمدن کا ذریعہ بنائے، جیسے کہ آپ کی صورتحال میں موجود ہے۔
– کام ایسا ہو جو جسم، تخلیق، اور مزاج ہر اعتبار سے صنف نازک کے ساتھ میل رکھتا ہو، مثلاً: طب، نرسنگ، تدریس، سلائی کڑھائی وغیرہ۔
– ملازمت کی جگہ صرف خواتین کام کرتی ہوں، وہاں پر اجنبی لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔
– کام کے دوران عورت شرعی حجاب کا مکمل اہتمام کرے۔
– کام کی وجہ سے بغیر محرم کے سفر کرنا نہ پڑے۔
– کام کیلیے جاتے ہوئے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرنا، اجنبی مردوں تک پہنچنے والی خوشبو لگانا وغیرہ۔
– ملازمت کی وجہ سے ضروری امور میں خلل پیدا نہ ہو، مثلاً: گھر کی دیکھ بھال، شوہر اور اولاد کی ضروریات وقت پر پوری کرنا۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عورت کیلیے ملازمت کی جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں: صرف عورتیں ہی کام کریں، مثلاً: لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں کام کرے، چاہے وہاں پر کام ادارتی ہو یا فنی ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے خواتین کے کپڑے وغیرہ سلائی کرے ، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرے۔
لہذا ایسی جگہیں جہاں پر مرد حضرات کام کرتے ہوں تو وہاں پر عورت کیلیے کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا، اور یہ بہت سنگین نوعیت کا فتنہ ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد مردوں کیلیے خواتین سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہو گا، بنی اسرائیل کی آزمائش بھی خواتین کے ذریعے ہوئی تھی) اس لیے گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فتنوں کی جگہوں اور فتنوں کے اسباب سے اپنے اہل خانہ کو بچا کر رکھے" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة " ( 2 / 981 )
اگر یہ تمام شرائط آپ کے کام کرنے کی جگہ میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نیک رفیق حیات نصیب فرمائے، بیشک وہ اس پر قادر ہے اور وہی یہ کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات