كئى ايك بار ايسا ہوا كہ ميں نماز فجر كے وقت يا نماز سے قبل بالكل بيدار ہوا اور دوبارہ سو گيا، مجھے ياد ہے كہ دو بار تو ميں بالكل نماز فجر كے وقت بيدار ہوا ليكن پھر سو گيا، پھر ميں نے شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا قول سنا كہ:
ايسا كرنے والا شخص كافر ( اور مرتد ) ہے، كيا يہ صحيح ہے، اور اس مسئلہ ميں اہل سنت و الجماعت كے عقيدہ كے مطابق صحيح كيا ہے ؟
( اور اگر يہ ( كفر يا مرتد ہونا ) صحيح ہے تو مجھے كيا كرنا ہو گا ؟
ايك اور سوال يہ ہے كہ:
اگر ميرى نماز عصر رہ جائے( نماز وقت نكل جائے ليكن ميں نماز ادا نہ كروں ) تو كيا اس بنا پر ميں كافر ہو جاؤنگا ( حالانكہ ميں روزانہ نماز پنجگانہ ادا كرتا ہوں ) ؟
مجھے علم ہے كہ صحيح بخارى كى روايت كے مطابق ميرے اس روز كے سارے اعمال ضائع ہو جائينگے، ليكن ميرا مندرجہ بالا سوال اس ليے ہے كہ ميں آپ كو حق اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر خيال كرتا ہوں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
نيند سے بيدار ہو كر بغير نماز ادا كيے سو جانا
سوال: 10914
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 – اگر آپ نماز فجر كے وقت بيدار ہوں اور پھر آپ پر نيند كا غلبہ ہو جائے، ليكن آپ كى نيت اور عزم يہ ہو كہ كچھ دير بعد ـ نماز كا وقت نكلنے سے قبل ـ بيدار ہو جائينگے، ليكن آپ نماز كا وقت نكل جانے سے قبل بيدار نہ ہو سكيں تو آپ بيدار ہوتے ہى فورى طور پر نماز ادا كر ليں، اور آئندہ يہ عہد كريں كہ شيطان آپ كے ساتھ يہ كھيل نہيں كھيل سكے گا، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو معاف فرمائے.
2 – ليكن اگر آپ كا يہ ارادہ اور عزم ہو كہ نماز كا وقت نكلنے كے بعد نماز ادا كرونگا ـ يا پھر اس ميں آپ كو شك اور تردد ہو ـ تو يہ ايسا فعل ہے جس كى بنا پر بعض اہل علم كے ہاں وہ كافر ہو جاتا ہے.
چنانچہ اگر آپ سے يہ فعل سرزد ہوا ہے تو آپ اللہ تعالى كے ہاں ابھى سے ہى توبہ و استغفار كريں، اور پختہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا نہيں ہو گا، اگر آپ كو فوت شدہ نمازوں كى تعداد كا علم ہے تو اسے قضاء كر كے ادا كريں، اللہ تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرتا ہے، اس كا كفارہ يہى ہے، اور نماز عصر كے متعلق كلام بھى بالكل نماز فجر كى طرح ہى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ سعد الحمید