میں تجارتی لین دین کرتا ہوں، اس تجارت سے حاصل ہونے والا منافع میرے اور اہل خانہ کیلئے کافی ہے، میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں حج کرسکوں اِلاّ کہ میں رأس المال سے رقم نکالوں، جس سے میرا نفع کم ہوجائے گا جو کہ میرے بچوں کیلئے ناکافی ہوگا، تو کیا اس صورت میں مجھ پر حج کرنا واجب ہے؟
کیا حج کیلئے رأس المال سے رقم لینا واجب ہے؟ حالانکہ اسے رأس المال کی ضرورت بھی ہے۔
سوال: 109334
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا) آل عمران/97
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
اور مالی استطاعت کا مطلب ہے کہ: اس کے پاس اتنی رقم موجود ہو جو اسے اور اسکے اہل خانہ کیلئے حج سے واپسی تک کیلئے کافی ہو۔
اور واپس آنے کے بعد اس کے پاس اتنی رقم موجود ہو جو اسکے گھر کے افراد کو کفایت کرے، جیسے گھر کا کرایہ، تنخواہیں، اور تجارتی لین دین کیلئے ضروری رقم، وغیرہ
لہذا ایسی صورتِ حال میں اس پر حج لازمی نہیں ہے کہ تجارت سے حاصل ہونے والا نفع صرف اہل خانہ کیلئے کافی ہو اور وہ اپنی تجارت کے رأس المال سے رقم نکال کر حج کرے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغني” (5/12) میں کہتے ہیں:
“جس کے پاس ایسا مکان ہو جہاں یہ خود رہائش پذیر ہو، یا اسکے اہل خانہ وہاں رہتے ہوں، یا اس مکان کے کرایہ کی اسے ضرورت ہو، یا اس کے پاس ایسا تجارتی سامان ہو جس میں کمی کے باعث آمدن میں کمی ہو جائے اور بقیہ آمدن کفایت نہ کرے تو اس پر حج کرنا لازمی نہیں ہے” انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:
“میں مصری شہری ہوں، اور دو بچوں اور ایک بیوی کی کفالت کرتا ہوں، مصر میں میری تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ میں اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کر سکوں، اور اسکے علاوہ میرا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ، ایک خلیجی ملک میں چار سال تک کام کیا ، تو میرے پاس کچھ رقم جمع ہوگئی، جسکو میں نے ایک اسلامی بینک میں جمع کروا دیا، تا کہ زندگی کے نا مساعد حالات میں میرے لئے ایک اور ذریعہ آمدن ہوسکے، اب تنخواہ اور بینک سے ملنے والے نفع دونوں سے میرے حالات میانہ روی اختیار کر گئے ہیں، تو کیا اب اس مال میں سے حج کیلئے رقم علیحدہ کرنا میرے لئے واجب ہے؟یا میں ان حالات کے تناظر میں حج کرنے کا مکلف ہوں؟ ذہن نشین رہے کہ اگر میں نے حج کیلئے رقم نکلوائی تو اس سے میری ماہانہ آمدن متاثر ہوگی، جس سے مجھے مالی طور پر پریشان ہونا پڑے گا”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر آپ کی حالت بیان کردہ صورتِ حال سے دوچار ہے تو آپ حج کرنے کے مکلف نہیں ہیں؛ اس لئے کہ آپ شرعی طور پر حج کی طاقت نہیں رکھتے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا) آل عمران/97
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
(فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ) التغابن/16
ترجمہ: جتنی تم میں طاقت ہے اتنا ہی اللہ سے ڈرو۔
(وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ) الحج/78
ترجمہ: اوراس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه و سلم. انتہی
دائمی کمیٹی برائے فتوی اور علمی بحوث
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز…. الشيخ عبد الرزاق عفيفي… الشيخ عبد الله بن غديان.
“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/35، 36)
مذکورہ بالا بیان کے بعد ؛ پتہ چلتا ہے کہ جب تک اپنے مال کے اہل خانہ پر خرچ کرنے کیلئے محتاج ہیں آپ پر حج کرنا واجب نہیں .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب