ميرا سوال امام كے پيچھے صحيح طريقہ پر نماز ادا كرنے كے متعلق ہے اور بالتحديد سورۃ فاتحہ كے متعلق:
1 – كيا امام كى جھرى قرآت كے وقت ہم پر فرضى نماز كى پہلى دو ركعتوں ميں پست آواز كے ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے ؟
2 – كيا ہم پر امام كے پيچھے تيسرى اور چوتھى ركعت ميں بھى سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، يعنى جن ركعتوں ميں امام سرى قرآت كرتا ہے ؟
يہ سوال اس ليے پيدا ہو كہ ہمارے محلہ كى جماعت اپنى نماز كا طريقہ صحيح كرنا چاہتى ہے، اور اہل محلہ اس سلسلہ ميں دو قسم كى رائے ركھتے ہيں:
پہلى رائے يہ ہے كہ: جب امام نماز پڑھا رہا ہے ہو تو ہميں صرف سننا چاہيے چاہے وہ ( پہلى اور دوسرى ركعت ميں ) جھرى قرآت كرے يا پھر ( تيسرى اور چوتھى ركعت ميں ) سرى قرآت كر رہا ہو.
ليكن دوسرى رائے كے لوگ كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بغير نماز قبول نہيں ہوتى، چاہے امام جھرى قرآت كرے يا سرى.
آپ سے ميرى گزارش ہے كہ اس بارہ ميں بيان كريں كہ صحيح كيا ہے، اور اس كے جتنے بھى زيادہ دلائل ہوں ديں ؟
نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت
سوال: 10995
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت نماز كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، چاہے نمازى امام ہو يا مقتدى، يا منفرد؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ).
ليكن امام كے پيچھے جھرى نمازوں ميں سورۃ فاتحہ پڑھنے كے متعلق علماء كرام كے دو قول ہيں:
پہلا قول:
سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جو شخص فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غلط طريقہ سے نماز ادا كرنے والے صحابى كو نماز سكھائى تو اسے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم ديا تھا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت فرمايا كرتے تھے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
" مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں بغير كسى قيد كے سورۃ فاتحہ پڑھنے كى اجازت ثابت ہے، يہ ان احاديث ميں ہے جو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جزء القرآۃ ميں اور ترمذى، ابن حبان وغيرہ نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:
عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادۃ:
مكحول محود بن ربيع سے بيان كرتے ہيں وہ عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ:
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
دوسرا قول:
امام كى قرآت مقتدى كے ليے ہے: اس كى دليل فرمان بارى تعالى ہے:
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور خاموش رہو، تا كہ تم پر رحم كيا جائے الاعراف ( 204 ).
حافظ ابن حجر كہتے ہيں:
جھرى نماز ميں سورۃ فاتحہ ساقط كرنے والوں نے اس حديث " اور جب وہ قرآت كرے تو تم خاموش رہو " سے استدلال كيا ہے جيسا كہ مالكى.
يہ حديث صحيح ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
جو سورۃ فاتحہ كے وجوب كے قائل ہيں وہ كہتے ہيں كہ امام جب سورۃ فاتحہ سے فارغ ہو جائے تو كسى دوسرى سورۃ كے شروع كرنے سے قبل مقتدى سورۃ فاتحہ پڑھ لے، يا پھر سكتوں كے درميان پڑھى جائے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جب امام پڑھے تو خاموشى اختيار كى جائے اور جب امام خاموش ہو تو مقتدى پڑھے " اھـ
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام كے سكتوں سے مراد يہ ہے كہ جو سكتے اور خاموشى سورۃ فاتحہ كى آيات كے درميان اختيار كى جاتى ہے، يا پھر سورۃ فاتحہ پڑھنے كے بعد سكتہ ہوتا ہے، اس كے بعد والى سورۃ كے بعد، اور اگر امام خاموش نہيں ہوتا تو علماء كرام كا صحيح قول يہ ہے كہ: مقتدى پر سورۃ فاتحہ پھر بھى پڑھنى واجب ہے، چاہے امام كى قرآت كے دوران ہى پڑھے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 221 ).
مستقل فتوى كميٹى سے اسى طرح كا سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:
" اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہى ہے كہ نماز ميں امام، مقتدى اور منفرد پر جھرى اور سرى نمازوں ميں سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، كيونكہ اس كے دلائل صحيح ہيں، اور يہ فرمان بارى تعالى:
اور جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تا كہ تم تم پر رحم كيا جائے .
يہ عام ہے، اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" اور جب وہ قرآن پڑھے تو خاموش رہو "
يہ بھى سورۃ فاتحہ وغيرہ ميں عام ہے، جسے درج ذيل حديث مخصوص كرتى ہے:
" جس نے فاتحۃ الكتاب نہ پڑھى اس كى نماز ہى نہيں "
ثابت شدہ دلائل ميں جمع كرتے ہوئے.
اور درج ذيل حديث:
" جس كا امام ہو تو امام كى قرآت اس كے ليے قرآت ہے "
يہ حديث ضعيف ہے، اور يہ قول بھى صحيح نہيں كہ: امام كى سورۃ فاتحہ كى قرآت كے بعد مقتديوں كا آمين كہنا سورۃ فاتحہ كے قائم مقام ہے، اس سلسلہ ميں علماء كرام كے اختلاف كو آپس ميں بغض و عناد اور تفرقہ و عليحدگى كا باعث بنانا صحيح نہيں، بلكہ آپ كو مزيد علم كى تحصيل اور اس پر اطلاع كى ضرورت ہے.
اور جب كوئى شخص كسى امام كى تقليد كرتا جو جھرى نمازوں ميں مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ كے وجوب كا قائل ہو، اور كچھ دوسرے لوگ كسى ايسے امام كى تقليد كرتے ہيں كہ مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں خاموش رہنا واجب ہے، اور اس كے ليے امام كى سورۃ فاتحہ كى قرآت ہى كافى ہے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ ايك دوسرے سے دشمنى ركھيں، اور اس بنا پر بغض و عناد پيدا كريں.
جيسا كہ معلوم ہو چكا كہ سورۃ فاتحہ كے بغير نماز نہيں ہوتى تو اس ميں علماء كرام كے اختلاف كے بارہ ميں اپنا سينہ وسيع ركھيں، اور اپنے ذہن كو وسيع ركھيں، اور آپ اللہ تعالى سے حق ميں اختلاف سے ہدايت كى دعا كرتے رہيں، يقينا اللہ تعالى سننے والا اور قبول كرنے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد