اللہ تعالى آپ كى حفاظت فرمائے، ہم نے سنا ہے كہ عورتوں كا آپس ميں ستر گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے، كيا يہ صحيح ہے ؟
خاص كر ہم ديكھ رہى ہيں كہ شادى ہال ميں كچھ ايسى عورتيں بھى آتي ہيں ـ اللہ سے سلامتى و عافيت كى دعا كرتے ہيں ـ كہ انہوں نے بالكل مختصر اور تنگ يا پھر ايسا لباس پہنا ہوتا جس سے اسكى پنڈلياں بھى ننگى ہو رہى ہوتى ہيں، يا پھر ايسا لباس زيب تن كيا ہوتا ہے جس سے اس كى كمر اور سينہ كا كچھ حصہ ڈھكا ہوتا ہے….
مسلمان عورت ايسے آتى ہے جيسے وہ كسى كافر ملك كى رقاصہ ہو يا پھر پردہ سكرين پر آنے والى فحش فنكارہ، اور جب ہم انہيں اس سے منع كرتى ہيں تو وہ جواب ديتى ہيں: ايسا كرنے ميں كچھ حرج نہيں، عورت كا ستر تو گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے، ايسے لگتا ہے كہ شرم و حياء ختم ہو كر رہ گئى ہے، اور عورت حد سے آگے نكل چكى ہے، اور كفار سے مشابہت اختيار كر چكى ہے، اور ….. اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے ہميں جواب سے ضرور نوازيں.
عورتوں كے مابين عورت كا ستر
سوال: 11014
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
غير محرم اوراجنبى مردوں كے سامنے عورت مكمل ستر ہے، عورت كے ليے مردوں كے سامنے جسم كا كوئى حصہ بھى ظاہر كرنا جائز نہيں، چاہے وہ لباس ميں چھپى ہوئى بھى ہو جب اسے ديكھ كر اور اس كے طول اور چال ڈھال سے فتنہ كا ڈر ہو تو كچھ بھى ظاہر كرنا جائز نہيں.
اور سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ عورت كا عورتوں كے سامنے ستر گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے، تو يہ خاص ہے جب وہ اپنے گھر ميں اپنى بہنوں اور اپنے گھر كى عورتوں كے درميان ہو؛ حالانكہ اصل يہ ہے كہ اس پر واجب ہے كہ وہ اپنا سارا جسم چھپا كر ركھے، كيونكہ خدشہ ہے كہ اگر ايسا كريگى تو اس كى اقتدا اور نقل كرتے ہوئے يہ برى عادت عورتوں ميں پھيل جائيگى.
اور اسى طرح عورت كے ليے اپنے محرم مردوں اور اجنبى عورتوں سے اپنے جسم كے پرفتن مقام كو چھپانا واجب ہے، اس خدشہ كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ كہيں اس كے محرم يا پھر وہ عورتيں جنہيں اس كے اوصاف بتائيں جائيں وہ فتنہ ميں پڑ جائيں.
حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى عورت بھى كسى دوسرى عورت كا وصف اپنے خاوند كے سامنے بيان مت كرے، گويا كہ خاوند اسے اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہے "
اس كا معنى يہ ہے كہ: اگر وہ اپنے جسم كے پرفتن اعضاء مثلا چھاتى اور كندھے، اور پيٹ اور كمر ، يا بازو، يا گردن اور پنڈلياں ظاہر كرے تو اسے ديكھنے والا ضرور اس سے اس كى يہ عادت اور سوچ اپنائےگا.
اكثر طور پر يہ ہوتا ہے كہ عورتيں جو كچھ ديكھتى ہيں وہ گھر جا كر اپنے خاندان كے مرد اورعورت كے سامنے بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے كيسى كيسى عورت ديكھى، اور ہو سكتا ہے ان كا ذكر اجنبى اور غيرمحرم مردوں كے سامنے بھى ہو جو اس عورت كے بارہ ميں خيالات كا باعث بنے جو غلط اور ردى قسم كے دل والوں كا اس عورت سے تعلق قائم كرنے كا سبب بنے.
اس بنا پر عورت كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اپنے پرفتن اعضاء مثلا چھاتى، كمر بازو، اور پنڈلياں وغيرہ كو چھپا كر ركھے چاہے اس كے محر مرد اور اپنے خاندان كى ہى عورتيں كيوں نہ ہوں.
اور خاص كر جب تقريبات اور شادى ہال يا ہاسپٹل اور سكول و يونيورسٹى وغيرہ ميں تو اس كا خاص اہتمام ہونا چاہيے كہ جسم كا كوئى حصہ ظاہر نہ ہو چاہے عورتوں كے مابين ہى ہو، كيونكہ ہو سكتا ہے اچانك كوئى مرد آ جائے اور اسے ديكھ لے، يا پھر سن بلوغت كے قريب ہونے والے بچے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس كى ننگى تصاوير اتار لى جائيں اور يہ اس كے ليے بھى فتنہ كا باعث ہو، اور اسے ديكھنے والے كے ليے بھى.
بےپرد عورت اور باريك اور تنگ لباس زيب تن كر نے والى عورت كے ليے حديث ميں شديد قسم كى وعيد آئى ہے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جہنميوں كى دو قسميں ہيں جنہيں ميں نے نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنى اتنى مسافت سے پائى جاتى ہے "
معنى يہ ہے كہ: انہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہے ليكن وہ لباس شفاف اور باريك ہے، يا پھر اتنا تنگ ہے كہ جسم كے اعضاء كا حجم واضح كر رہا ہے، يا لباس ميں ايسے سوراخ اور گريبان اتنا كھلا ركھا ہے كہ اس سے چھاتى صاف نظر آ رہى ہے، اور پرفتن اعضاء نظر آتے ہيں، اور شادى اور مختلف دوسرى تقريبات ميں ان كا اسى حالت ميں جانا اس سب كو عام ہے.
واللہ تعالى اعلم.
ماخذ:
ماخوذ از: فتاوى فضيلۃالشيخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرين