سوال: ہم ایک عرب ملک کے تاجر ہیں، ہمارا لین دین یورپی ممالک سے ہے، اور ان ممالک سے خریداری کیلئے یورپی کرنسی استعمال کرنا لازمی ہے، لیکن جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں یہاں سے بہت تھوڑی مقدار میں یورپی کرنسی باہر لے جانے کی اجازت ہے، جس سے ہم بیرون ملک خریداری نہیں کر سکتے، اس پابندی کی وجہ سے ہمیں یورپ میں اُنکی کرنسی خریدنی پڑتی ہے، یعنی ہم اپنے ملک میں دینار پہلے جمع کرواتے ہیں، اور پھر جس ملک میں خریداری کرنی ہو وہاں پر ہم دوسری کرنسی وصول کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ہمارے ملک میں ائرپورٹ پر کسٹم حکام کو رشوت دے کر غیر ملکی کرنسی کی زیادہ مقدار باہر لے جاتے ہیں، اور بسا اوقات یہ لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں، جسکی وجہ سے انہیں بھاری جرمانے ادا کرنے پڑتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ٹیکس، اور رشوت سے بچنے کیلئے کیا اس طریقہ کار سے کرنسی خریدنا جائز ہے؟ اور ہمارے پاس اسکے علاوہ کوئی متبادل طریقہ بھی نہیں ہے۔
چیک یا حوالہ نمبر لینا اور اکاؤنٹ میں رقوم جمع کروانا بھی قبضہ میں لینے کی صورتیں ہیں۔
سوال: 110938
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مختلف کرنسی نوٹوں کے تبادلے کو "صرّافہ" کہا جاتا ہے، اس کے جائز ہونے کیلئے خریداری کی مجلس میں [قیمت یا فروخت شدہ کرنسی کو]اپنی تحویل میں لینا ضروری ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، برابر ، برابر اور نقد و نقد فروخت کی جائے، اور اگر سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے بدلے میں فروخت کیا جائے تو جیسے چاہو فروخت کرو، لیکن نقد و نقد) مسلم: (1587)
نقدی نوٹ سونے اور چاندی کے قائم مقام ہیں، چنانچہ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے میں فروخت کرنے کی صورت میں نقد و نقد ہونا ضروری ہے، اسی کے بارے میں فقہائے کرام کہتے ہیں: "خرید وفروخت کی مجلس میں قیمت اور فروخت شدہ اشیاء کا قبضہ لینا اور دینا" یعنی: یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ فروخت کنندہ، اور خریدار اپنے اپنے نقد نوٹ مکمل وصول کرنے سے پہلے الگ ہوں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کرنسی نوٹوں کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے، لیکن اس کیلئے قبضہ کی شرط لازمی ہے، یعنی کرنسی نوٹ مختلف ہونے کی صورت میں [صرف]نقد و نقد ہونا ضروری ہے، مثلاً: اگر امریکی کرنسی یا مصری کرنسی کو کسی دوسری کرنسی کے بدلے میں فروخت کرتے ہوئے نقد ونقد معاملہ کیا تو یہ جائز ہے، یعنی: ڈالر کے بدلے میں نقد ونقد لیبیا کی کرنسی فروخت کی اور اسی مجلس میں اس سے ڈالر لے کر لیبیا کی کرنسی پکڑا دی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصری یا برطانوی یا کوئی اور کرنسی لیبیا کی کرنسی کے بدلے میں نقد و نقد فروخت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ادھار پر انکی فروخت ہو تو یہ جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر اسی مجلس میں خرید شدہ کرنسی آپکی تحویل میں نہیں آتی تو پھر بھی جائز نہیں ہوگا، کیونکہ مذکورہ صورتوں میں یہ سودی لین دین شمار ہوگا، اس لئے اگر لین دین کی کرنسی الگ الگ ہے، تو اس صورت میں [صرف]نقد و نقد [کی شرط کیساتھ]جائز ہے، اور اگر دونوں کرنسی نوٹ ایک ہی ہیں تو ایسی صورت میں دونوں شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، برابر بھی ہوں اور نقد ونقد بھی ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے۔۔۔)پھر انہوں نے یہ مکمل حدیث ذکرکی۔
نقدی نوٹوں کا مذکورہ بالا حکم ہی ہے، اگر مختلف نوٹ ہوں تو کمی زیادتی جائز ہے، لیکن نقد و نقد ہونا ضروری ہے، اور اگر ایک ہی کرنسی کے نوٹ ہوں یعنی: ڈالر کی فروخت ڈالر کے بدلے، یا پھر دینار کی فروخت دینار کے بدلے تو نقد و نقد اور برابر، برابر ہونے کی شرط لازمی ہے"اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔ انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (19/171- 174)
قبضہ میں لینے کی کچھ صورتیں ہیں جن میں : چیک، حوالہ نمبر، اور بینک اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی بھی شامل ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہی کونسل نے اپنے گیارہویں اجلاس میں یہ قرار داد پاس کی ، جس میں ہے کہ:
"بحث و تمحیص اور تحقیق کے بعد اس اجلاس نے بالاجماع یہ پاس کیا ہے کہ:
اول: چیک کی وصولی رقم کو قبضہ میں لینے کے قائم مقام ہوگی، بشرطیکہ بینکوں میں منتقل شدہ رقوم نکلوانے کی لئے لگائی جانے والی تمام شروط اس میں پائی جائیں۔
دوم:کرنسی کا تبادلہ کرنے والے صارف کیلئے بینک کے رجسٹروں میں اندراج بھی قبضہ کے حکم میں ہوگا، چاہے کرنسی کے تبادلے کیلئے صارف خود نقدی نوٹ بینک کو پیش کرے، یا بینک میں جمع شدہ رقوم کو استعمال کرے" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک کرنسی سے دوسری کرنسی میں تبدیل شدہ مال کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: میں اپنی تنخواہ سعودی ریال میں وصول کرتا ہوں، اور پھر اسے سوڈانی ریالوں میں تبدیل کرواتا ہوں، یہ بات بتلاتا چلوں کہ ایک سعودی ریال تین سوڈانی ریالوں کے برابر ہے، تو کیا یہ سود ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"کسی ملک کے نقدی نوٹ کودوسرے ملک کی کرنسی میں تبدیل کرنا جائز ہے، اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے؛ کیونکہ اس وقت جنس مختلف ہے، جیسے کہ سوال میں ذکر بتلایا گیا ہے، لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ اسی مجلس میں ایک دوسرے کو کرنسی ادا کردی جائے، اور اس کیلئے چیک، یا حوالہ نمبردینے کا حکم بھی مجلس میں وصول کرنے کے مترادف ہے"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (13/448)
چنانچہ اگر آپ اپنے ملک میں کسی بینک کو دینار دیتے ہیں، اور بینک کی طرف سے ان دیناروں کے بدلے میں آپکو یورپی کرنسی کا چیک یا حوالہ نمبر دیا جاتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر آپ اپنے ملک میں کسی کو دینار دیں، اور وہ آپکے بیرون ملک اکاؤنٹ میں اسی وقت ان دیناروں کے بدلے میں یورپی کرنسی جمع کروادے تو یہ بھی جائز ہے۔
دوم:
سامان ، یا نقدی پر ٹیکس وصول کرنا جائز نہیں ہے، اور انسان ٹیکس سے بچنے کیلئے کچھ پیسہ خرچ کرسکتا ہے، لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ ٹیکس سے بچنے کیلئے سودی لین دین میں ملوّث ہوجائے۔
ظلم سے بچنے کیلئے یا پھر اپنا حقیقی حق حاصل کرنے کیلئے رشوت دینے کے بارے میں پہلے تفصیلی جواب سوال نمبر: (72268 ) میں گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات