اگر خاوند كوتاہى نہ كرتا ہو ليكن بيوى اسے مال نہ دے حالانكہ خاوند نے اسے كام كى اجازت تو دى ليكن تنخواہ كے بغير خاوند مصر ہے كہ اسے بتايا جائے تنخواہ ليتى ہے يا نہيں اگر تنخواہ ليتى ہے تو وہ بالكل كام نہيں كر سكتى، برائے مہربانى يہ بتايا جائے كہ اگر خاوند سے كام كى تنخواہ كو چھپايا جائے تو كيا يہ جائز ہے كيونكہ تنخواہ بالكل برائے نام سى ہے اور وہ خير و بھلائى كى راہ ميں خرچ كر دى جاتى ہے.
خاوند نے بيوى كو تنخواہ كے بغير كام كرنے كى اجازت دى كيا بيوى خفيہ طور پر تنخواہ لے سكتى ہے ؟
سوال: 111111
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
خاوند كى اجازت كے بغير بيوى گھر سے باہر كام نہيں كر سكتى، ليكن اگر عقد نكاح ميں كام كرنے كى شرط ركھى گئى ہو تو كر سكتى ہے، اور اگر خاوند اسے بغير تنخواہ كے خيرى طور پر كام كى اجازت دے اور تنخواہ لينے سے منع كر دے اور خاوند نفقہ ميں بھى كوتاہى نہ كرتا ہو تو اس ميں خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے، چاہے تنخواہ تھوڑى ہى كيوں نہ ہو، اس كى مخالفت نہيں كى جا سكتى.
اصل ميں بيوى خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے نكل ہى نہيں سكتى؛ كيونكہ صحيح بخارى اور مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے انہوں نے عرض كيا:
” اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ مجھے اپنے والدين كے ہاں جانے كى اجازت ديتے ہيں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4141 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2770 ).
عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا يہ كہنا كہ:
” كيا آپ مجھے اپنے والدين كے پاس جانے كى اجازت ديتے ہيں ؟ ”
اس ميں دليل ہے كہ بيوى خاوند كى اجازت كے بغير اپنے والدين كے گھر نہ جائے ” انتہى
ديكھيں: طرح التثر يب ( 8 / 58 ).
اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:
” بيوى كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير يا بغير كسى ضرورت مثلا كھانا لانے والا كوئى نہ ہو تو كھانا لانے كے ليے گھر سے باہر نكلنا حرام ہے ” انتہى بتصرف
ديكھيں: مطالب اولى النھى: ( 5 / 271 ).
خاوند كى اطاعت واجب ہونے كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 70222 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
خاوند كى اجازت لينا اس صورت ميں واجب ہے جب كام گھر سے باہر ہو، ليكن اگر گھر ميں ہو مثلا كھانا تيار كرنا يا پھر سلائى كڑھائى وغيرہ جس سے خاوند كو كوئى ضرر و نقصان نہ ہو اور بيوى اپنے خاوند كے امور سرانجام دينے ميں تعطل كا شكار نہ ہوتى ہو تو ان كاموں ميں خاوند كى اجازت لينا شرط نہيں ہے.
بيوى كو اجرت لينے سے منع كرنے كا سبب يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اجرت لينے ميں خاوند كو كوئى نقصان ہوتا ہو، ڈاكٹر خالد المشيقح حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر بيوى گھر ميں كوئى كام كرے اور اپنے خاوند سے اس كى آمدنى مخفى ركھے تو كيا حكم ہے، يہ علم ميں رہے كہ كام اچھا ہے يعنى كھانا وغيرہ تيار كر كے اجرت لينا ؟
شيخ كا جواب تھا:
” بيوى كا اجرت پر كام كرنا دو طرح ہو سكتا ہے:
پہلى قسم:
خاص اجرت: يہ وہ قسم ہے جس ميں فائدہ وقت كے ساتھ متعلق ہو، يہ خاوند كى اجازت كے بغير نہيں ہو سكتا، ليكن اگر خاوند نے عقد نكاح ميں شرط ركھى ہو.
دوسرى قسم:
مشتركہ اجرت: جس ميں فائدہ كام كے ساتھ تعلق ركھے، اس طرح كا كام كاج عورت كا اپنے گھر ميں كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا سلائى كڑھائى اور كھانا وغيرہ تيار كرنا، عورت كے ليے اس كى اجرت شرط پر لينى جائز ہے كہ اس سے خاوند كو كوئى نقصان و ضرر نہ ہوتا ہو، اور اس ميں خاوند كى اجازت حاصل كرنا شرط نہيں ہوگى.
اگر اس ميں خاوند كو نقصان و ضرر نہ ہو، اور نہ ہى اس كام كاج كے ليے خاوند كا مال يا كھانا اس كى اجازت و رضامندى كے بغير لگايا گيا ہو تو يہ جائز ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، اس سے حاصل ہونے والا مال عورت كى ملكيت ہو گا ” انتہى
ماخوذ از: فتاوى الاسلام اليوم.
اس سلسلہ ميں ہمارى بيوى كو يہى نصيحت ہے كہ وہ اپنے خاوند كے ساتھ بات چيت كرے، ہو سكتا ہے دونوں ميں سے كوئى ايك اپنى رائے كے مطابق دوسرے كو مطمئن كر لے اور خاوند كے كام اور آمدنى چھپانے اور بعد ميں خاوند كے علم ميں آنے كى صورت ميں جو مشكلات پيدا ہو سكتى ہيں ان پر قابو پايا جا سكے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات