تقريبا دو ماہ قبل ميرى ايك دينى سمجھ بوجھ ركھنے والے شخص سے منگنى ہوئى، اور وہ چاہتا تھا كہ اسے عقد شرعى كى جگہ ہو ليكن ميرے خاندان والوں نے اسے جلد بازى كا سبب كہہ كر اس سے انكار كر ديا، اس ليے كہ ہم بغير كسى نگران كے خلوت كرتے رہے ہم سے بغير جماع كيے ايك دوسرے سے لطف اندوز ہونا سرزد ہوا اور وہ بھى رمضان المبارك كے مہينہ ميں، اس وقت سے اب تك ميں شديد غمگين ہوں اب مجھے پانچ ماہ كے روزے ركھنے مشكل ہيں ( ہر ايك دن كے بدلے ايك ماہ كے روزے )، يہ پہلى پرابلم ہے، برائے مہربانى اس كے حل كے ليے كوئى راہنمائى فرمائيں، كيونكہ اس نے ميرى نيند اڑا دى ہے.
دو ہفتہ قبل ميرا اس شخص كے ساتھ عقد نكاح بھى ہو گيا ہے اور اس نے رخصتى كے اعلان سے قبل ہى ميرے ساتھ بنا يعنى جماع بھى كر ليا كيونكہ رخصتى كے ليے تو ايك سال كا وقت مقرر كيا گيا ہے، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر عقد نكاح كرنے والے شخص كے حقوق كا مطالعہ كيا ہے جس سے معلوم ہوا كہ عقد نكاح كر لينے والے شخص كو خرابيوں سے اجتناب كے ليے رخصتى كے اعلان سے قبل بيوى كے ساتھ جماع نہيں كرنا چاہيے.
اس بنا پر ميں نے اسے كہا كہ اب رخصتى تك ميں يہ كام نہيں كر سكتى، ليكن اس نے ايسا كرنے سے انكار كر ديا ہے اور اپنا حق استمتاع لينے پر مصر ہے، اب يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
ميرے گھر والوں كو علم نہيں كہ ميں كنوارى نہيں رہى اور مجھے رخصتى كے اعلان سے قبل حمل كا بھى خدشہ ہے، اس طرح كى حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيے، كيا اگر خاوند مجھے بلائے تو ميں اس كى اطاعت كروں ؟ اور كيا مجھے اپنے گھر والوں كو بتا دينا چاہيے كہ وہ مجھ سے دخول كر چكا ہے مجھے علم ہے كہ ميرے گھر والے يہ چيز كبھى قبول نہيں كرينگے، اس كا حل كيا ہے ؟
عقد كرنے كے بعد بغير جماع كيے رمضان ميں بيوى سے مباشرت اور رخصتى كے اعلان سے قبل جماع كر ليا
سوال: 111165
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جب شرعى عقد نكاح مكمل شروط اور اركان كے ساتھ طے پا جائے يعنى ايجاب و قبول كے ساتھ اور ولى كى موافقت اور دو گواہوں كى موجودگى يا پھر اس نكاح كے اعلان كے ساتھ عقد نكاح طے پا جائے تو يہ عورت اس شخص كى بيوى بن جائيگى، ہر ايك كے ليے ايك دوسرے سے استمتاع كرنا جائز ہے.
چنانچہ رخصتى اور شب زفاف كے اعلان سے قبل دونوں كے ليے بوس و كنار كے ساتھ استمتاع كرنا جائز ہے، چاہے اس كے نتيجہ ميں انزال منى بھى ہو جائے، ليكن جماع نہ ہو.
دوم:
بغير كسى عذر كے رمضان المبارك ميں روزہ چھوڑنے والے پر كفارہ واجب نہيں ہوتا، ليكن اگر اس نے روزہ جماع كے ساتھ توڑا ہو تو اس پر كفارہ واجب ہوگا، اس ليے جس نے جماع كے علاوہ كسى اور چيز كے ساتھ روزہ توڑا اس پر كفارہ نہيں ہے.
اس بنا پر جيسا كہ آپ كہہ رہى ہيں رمضان المبارك ميں لطف اندوزى اور مداعبت ہونے كى صورت ميں كفارہ واجب نہيں، ليكن اگر اس كى نتيجہ ميں منى كا اخراج ہوگيا تو روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اس سے توبہ اور ندامت كا اظہار ضرورى ہے اور بطور قضاء ايك روزہ بھى ركھا جائيگا.
ليكن اگر منى كا اخراج نہيں ہوا تو پھر اس دن كا روزہ صحيح ہے اس پر كچھ لازم نہيں آئيگا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (71213 ) اور (14315 ) اور (49614 ) اور (37887 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
آپ كے خاوند نے رخصتى كے اعلان سے قبل آپ سے جماع و دخول كر كے واضح غلطى كى ہے، اس نے جو كيا ہے اس كے بہت سارے غلط نتائج نكل سكتے ہيں، ايك دينى امور كا التزام كرنے والا شخص اہل علم كى ترہيب اور تنبيہات اور نصائح پر عمل نہ كرے اور دخول ميں جلد بازى سے كام لے يہ كيسا التزام ہے ؟
اور پھر اسے يہ حق كا دعوى كرنا بھى غلط ہے صحيح نہيں، كيونكہ اس كے اور بيوى كے خاندان والوں كے درميان اتفاق ہوا تھا كہ رخصتى ايك برس بعد ہوگى، لہذا اسے اس وعدہ اور معاہدہ كو پورا كرنا واجب تھا، اور جو شرط ركھى گئى تھى كہ رخصتى ايك برس بعد ہو گى اس شرط كو پورا كرنا ضرورى تھا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” سب سے زيادہ وہ شروط وفا اور پورا كرنے كا حق ركھتى ہيں جن كے ساتھ تم شرمگاہوں كو حلال كرتے ہو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
عقدج نكاح كے بعد اور دخول و رخصتى سے قبل آدمى كے ليے اپنى بيوى سے كيا كچھ جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” آدمى كے ليے اس سے وہ كچھ جائز ہے جو مردوں كے ليے اپنى بيويوں سے جائز ہوتا ہے، ليكن اسے رخصتى تك صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اگر وہ كسى واضح امر كى بنا پر بيوى كے گھر والوں كى اجازت سے اسے ملنا چاہے اور اس سے رابطہ كرنا چاہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اگر بيوى كے گھر والوں كى اجازت سے ملے اور خلوت كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن خفيہ طريقہ سے بيوى كو ملنا كہ كسى كو علم بھى نہ ہو ايسا عمل كرنے ميں بہت خطرہ ہے كيونكہ ہو سكتا ہے بيوى حاملہ ہو جائے، اور پھر اس كے بارہ ميں سوء ظن كرنے لگے، يا بيوى سے رابطہ كا ہى انكار كر دے كہ وہ تو اس سے ملا ہى نہيں اس طرح فتنہ پيدا اور بہت شر پيدا ہو جائےگا، اس ليے اسے اس سے اجتناب كرنا چاہيے.
وہ صبر و تحمل سے كام لے حتى كہ رخصتى آسانى ہو جائے اور شب زفاف كا اہتمام ہو جائے، اور اگر بيوى سے رابطہ كرنے كى ضرورت ہو اور اس سے ملنا چاہے تو وہ بيوى كے والد يا بھائى يا ماں كے ہوتے ہوئے كرے، تا كہ كسى ايسے كام كا ارتكاب نہ كر بيٹھے جس كا انجام اچھا نہ ہو ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 21 / 208 – 209 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب انسان كسى عورت سے عقد نكاح كر ليتا ہے تو وہ اس كا خاوند بن جاتا ہے، اس سے ٹيلى فون پر بات كرنى اور اس كو موبائل ميسج كرنا جائز ہے… اس سے سے ٹيلى فون پر بات كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن بيوى سے جماع كرنا جائز نہيں ملاقات كر سكتا ہے؛ كيونكہ وہ اس كى بيوى ہے، اس ليے اگر وہ اس سے رابطہ كرتا ہے اور اس كے ساتھ بيٹھ كر بوس و كنار كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ ليكن اس ميں جماع ميں خطرہ ہے، اور اس سے سوء ظن ہو سكتا ہے، اور اس جماع سے حمل بھى ٹھر سكتا ہے، اور رخصتى كے وقت سے قبل بچہ پيدا ہونے كى صورت ميں عورت پر تہمت لگ جاتى ہے ” انتہى
ديكھيں: لقاء ات الباب المفتوح ( 175 ) سوال نمبر ( 12 ).
چہارم:
آپ پر درج ذيل امور سرانجام دينا واجب ہيں:
– آپس ميں فورى طور پر ايسے رابطہ سے اجتناب كريں جو جماع كا باعث سكتا ہو.
– خاوند كو اللہ كا تقوى اختيار كرنے كى ترغيب دى جائے، اور رخصتى كرنے ميں جلدى كرے، چاہے اسے اس كے ليے قرض بھى حاصل كرنا پڑے، يا اسے اس سلسلہ ميں مشقت اٹھانى پڑے، يہ معاملہ حمل كے احتمال سے متعلق نہيں، بلكہ كنوارہ پن ختم ہونے كے يقين سے تعلق ركھتا ہے، اس صورت ميں اگر اللہ نہ كرے خاوند فوت ہو جائے يا پھر طلاق دے دے تو بہت خطرناك اور برے نتائج نكل سكتے ہيں.
– اگر خاوند رخصتى جلدى نہيں كر سكتا تو آپ اپنے گھر والوں كو اس كے بارہ ميں ضرور بتائيں اور بالكل نہ چھپائيں كيونكہ اس ميں ہى آپ كى مصلحت پائى جاتى ہے، اور اگر وہ اس كا بعد ميں اقرار كر لے تو بہت آسان ہے، ليكن اگر طلاق ہو گئى اور وہ اس سے انكار كر دے يا پھر فوت ہو جائے تو بہت مشكل پيش آئيگى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات