ايك شخص كے پاس كچھ رقم ہے جو اس كے بھائيوں اور جان پہچان والوں نے بطور قرض حاصل كر ركھى ہے، ہو سكتا ہے يہ قرض اسے واپس ملے يا نہ ملے وہ يہ سوال كرتا ہے كہ آيا اس ميں زكاۃ واجب ہے ؟
مشكوك وصولى والے قرض ميں زكاۃ
سوال: 1117
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس شخص كى رقم كسى ايسے شخص كے ذمہ قرض ہو جو مالدار ہے اور وہ قرض نصاب كو پہنچتا ہے يا اس كے پاس موجود رقم ملا كر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس ميں زكاۃ واجب ہو گى، اور جب وہ يہ قرض وصول كرے گا تو گزشتہ برسوں كى سارى زكاۃ ادا كرے گا، چاہے ايك سال ہو يا زيادہ، اور اگر وہ وصولى سے قبل اس كى زكاۃ ادا كر دے تو يہ بہتر ہے.
اور اگر اس كى رقم كسى ايسے شخص كے پاس قرض ہے جو تنگ دست ہے تو وہ اس كى زكاۃ اس كى وصولى كے بعد صرف ايك برس كى زكاۃ ادا كرے گا.
يہ امام احمد رحمہ اللہ كى ايك روايت اور امام مالك رحمہ اللہ كا قول ہے، اور شيخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے بھى يہى اخيتار كيا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 190 )