حج یا عمرے کی نیت کرتے وقت ان الفاظ " إِنْ حَبَسِنِيْ حَابِسٌ فَمَحَلِّيْ حَيْثُ حَبَسْتَنِيْ" کے ساتھ شرط لگانے کا کیا فائدہ ہے؟
احرام کی نیت کے وقت شرط لگانے کا فائدہ
سوال: 111784
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر کسی کو خدشہ ہو کہ حج یا عمرے کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ کھڑی ہو سکتی ہے تو اس کیلیے حج یا عمرے کے احرام کی نیت کرتے وقت یہ شرط لگانا شرعی عمل ہے، اس کیلیے یہ الفاظ کہے گا: " إِنْ حَبَسِنِيْ حَابِسٌ فَمَحَلِّيْ حَيْثُ حَبَسْتَنِيْ" [اگر مجھے کوئی روکنے والا روک دے تو میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں تو مجھے روک دے گا] اس کی دلیل صحیح بخاری : (5089) اور صحیح مسلم: (1207) میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کو حالت مرض میں حج کا ارادہ کرنے پر کہا تھا : (حج کرو اور شرط لگاتے ہوئے کہہ دو: اَللَّهُمَّ مَحَلِّيْ حَيْثُ حَبَسْتَنِيْ)[یا اللہ! میرے حلال ہونے کی جگہ وہی ہو گی جہاں تو مجھے روک دے]
اس شرط کو لگانے کا محرم کو فائدہ یہ ہو گا کہ: اگر حج کی تکمیل میں کوئی مانع آ جائے مثلاً: بیماری یا حادثاتی صورت حال بن جائے یا کسی بھی سبب کی وجہ سے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جائے تو وہ اپنے احرام کو کھول دے اور اس پر کچھ نہیں ہو گا، نہ اس پر فدیہ لازم آئے گا اور نہ ہی ہدی اسی طرح اس پر سر منڈوانا بھی ضروری نہیں ہو گا۔
اور اگر یہ شرط نہ لگائے تو پھر حج یا عمرے کی عدم تکمیل کی صورت میں اسے محصر کہا جائے گا، محصر اسے کہتے ہیں جس کے حج یا عمرے کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ آ جائے، تو اس پر لازمی ہے کہ وہ ہدی کا جانور ذبح کرے، اور اپنا سر منڈوا لے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ کے سال میں کیا تھا کہ آپ کو مشرکوں نے مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہدی کا جانور ذبح کر دیا اور اپنا سر منڈوا لیا پھر صحابہ کرام کو بھی یہی کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: (اٹھو اور اپنی قربانیاں ذبح کر دو اور پھر سر منڈوا لو) بخاری: (2734)
نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ اور حج اور عمرے کو اللہ کیلیے مکمل کرو، پس اگر تم محصور کر دئیے جاؤ تو جو ہدی میسر ہو [اسے ذبح کر دو] اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔[البقرة: 196]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس شرط کے لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر احرام والے شخص کو کسی ایسی رکاوٹ مثلاً: بیماری، دشمن وغیرہ کا سامنا ہو جائے جس سے حج یا عمرے کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائے تو اس کیلیے احرام کھولنا جائز ہے، اور اس پر کچھ نہیں ہے" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز" (17/50)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شرط لگانے کا فائدہ : اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر انسان کسی مجبوری کی بنا پر اپنا حج یا عمرہ مکمل نہ کر پائے تو بلا کسی چیز کے اپنا احرام ختم کر سکتا ہے، یعنی وہ احرام کھول دے اس پر فدیہ اور قضا کچھ بھی نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (22/28)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب