ميرے خالو نے ميرى خالہ سے دوسرى شادى كرنے كى اجازت مانگى اور انہيں بتايا كہ عنقريب ان كى رخصتى ہے، مشكل يہ ہے كہ ميرى خالہ جان پچھلے چند برسوں بيمارى كى بنا پر ملازمت نہيں كر سكتى تھيں، ليكن پھر بھى ميرے خالو نے انہيں صفائى وغيرہ كا كام كرنے پر مجبور كيا، اور خالو جان خود بھى ملازمت كرتے ہيں، ليكن خالہ كى سارى تنخواہ بھى خود لے كر خالہ كو بہت تھوڑى رقم ديتے.
اور اس كے ساتھ ساتھ خالہ كو كہا كہ وہ گھر كا كرايہ اور دوسرے اخراجات ادا نہيں كريں گے، خالہ كو زيادہ كام كرنا چاہيے تا كہ وہ يہ سارے اخراجات برداشت كرے، ملازمت كى بنا پر خالہ جان اور زيادہ بيمار ہو گئيں، ميرى خالہ ہى سارے اخراجات برداشت كرتى ہيں، اور خالو كا دعوى ہے كہ اس كے پاس كوئى پيسے نہيں، حالانكہ واقع يہ ہے كہ وہ سارے پيسے دوسرى بيوى اور اس كى رخصتى پر خرچ كر رہے ہيں.
ہمارى خالہ يا پھوپھى نے ہميں بتايا ہے كہ وہ اپنے خاوند سے بھاگ كر ہمارے گھر ميں آ كر رہے گى، يہ پہلى بار نہيں كہ وہ دوسرى شادى كر رہا ہے اور ہمارى خالہ كو پوچھتا بھى نہيں، ليكن ميرى خالہ كہتى ہے كہ وہ اپنے خاوند كو آخرى موقع دينا چاہتى ہے.
كيا ہمارے ليے حرام ہے كہ ہم خالہ كو اپنے پاس ركھ كر انہيں طلاق لينے پر ابھاريں، ہميں اپنى خالہ كى صحت كى خرابى كا خطرہ ہے وہ بيمار ہيں كيا انہيں طلاق كا حق حاصل نہيں ؟
خاوند ملازمت پر مجبور كرتا اور دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے كيا طلاق طلب كر لے ؟
سوال: 112032
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند پر واجب كيا ہے كہ وہ اپنى بيوى كو رہائش فراہم كرے اور اسے لباس بھى فراہم كرے اور اس پر خرچ كرے، اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ سب بيوى كے حقوق بنائے ہيں.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
انہيں وہيں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اپنى استطاعت كے مطابق الطلاق ( 6 ).
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” خاوند پر لازم ہے كہ وہ اپنى استطاعت اور قدرت كے مطابق بيوى كو رہائش فراہم كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جہاں تم خود رہتے ہو اپنى قدرت كے مطابق انہيں وہيں ركھو الطلاق ( 6 ).
ديكھيں: محلى ابن حزم ( 9 / 253 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عورت كے ليے رہائش دينا واجب ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
انہيں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اپنى استطاعت و قدرت كے مطابق .
اس ليے جب طلاق يافتہ عورت كے ليے رہائش دينا واجب ہے تو پھر جو عورت نكاح ميں ہو اسے بدرجہ اولى رہائش مہيا كرنا واجب ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( بيويوں ) سے حسن معاشرت اختيار كرو .
اور معروف يعنى اچھے طريقہ سے بود و باش ميں يہ بھى شامل ہے كہ بيوى كو رہائش اور مكان مہيا كيا جائے، اور اس ليے بھى كہ رہائش كے بغير وہ دوسروں كى آنكھوں سے نہيں چھپ سكتى اس ليے رہائش اور مكان مہيا كرنا واجب ہے، اور تصرف اور استمتاع اور سامان كى حفاظت كے ليے بھى رہائش و مكان كى ضرورت ہے “
ديكھيں: المغنى ( 9 / 237 ).
معاويہ بن حيدہ رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے دريافت كيا:
عورت كے اپنے خاوند پر كيا حقوق ہيں ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تم كھاؤ تو اسے بھى كھلاؤ، اور جب تم خود پہنو تو اسے بھى پہناؤ، اور چہرے پر مت مارو، اور نہ ہى اسے قبيح كہو، اور گھر كے علاوہ اس كے ساتھ كہيں بائيكاٹ نہ كرو “
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1850 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1929 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس حديث ميں بيوى كے ليے نان و نفقہ اور لباس كا وجوب پايا جاتا ہے، اور اس ميں كوئى معلوم حد نہيں، بلكہ يہ عرف اور عادات كے مطابق ہوگا، اور يہ خاوند كى قدرت و استطاعت كے مطابق ہے.
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے عورت كا حق قرار ديا ہے تو پھر يہ خاوند كے ذمہ لازم ہوگا، چاہے خاوند گھر ميں ہو يا پھر مسافر، اور اگر وہ اسے نہيں پاتا تو پھر يہ اس كے ذمہ قرض ہے حتى كہ اس كى ادائيگى كر دے، جس طرح باقى حقوق زوجيت ادا كرنے ہيں اسى طرح يہ بھى ادا كرنا ہوگا “
ديكھيں: معالم السنن على ہامش المنذرى (3 / 67 – 68 ).
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرو، كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امانت كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور تمہارے ذمہ اچھے طريقہ سے ان كا كھانا پينا اور لباس ہے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس حديث ميں بيوى كا نان و نفقہ اور اس كے لباس كا وجوب پايا جاتا ہے، اور يہ اجماع سے ثابت ہے “
ديكھيں: شرح مسلم ( 8 / 184 ).
دوم:
ايك سے زائد بيوياں ركھنے والے شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے بيويوں كے نان و نفقہ اور لباس اور رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف سے كام لے، خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كے مابين تقسيم ميں ظلم سے كام لے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا و پيروى كرتے ہوئے نان و نفقہ اور لباس ميں عدل كرنا بھى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے نان و نفقہ اور تقسيم ميں عدل كيا كرتے تھے، حالانكہ لوگ تقسيم ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ واجب تھى يا پھر مستحب ؟
اور اس ميں بھى اختلاف كرتے ہيں كہ آيا نان و نفقہ ميں عدل كرنا واجب تھا يا كہ مستحب ؟
اس كا واجب ہونا زيادہ قوى اور كتاب و سنت كے اشبہ ہے “
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 269 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك سے زائد بيوياں ركھنے والے شخص كو اپنى بيويوں پر ظلم و ستم كرنے سے بچنے كا كہا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس كى دو بيوياں ہوں اور وہ ان ميں سے كسى ايك كى طرف مائل ہو تو روز قيامت آئيگا تو اس كى ايك سائڈ مائل ہوگى “
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1141 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2133 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3942 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1969 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام ( 3 / 310 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 80 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور جس پر مسلمانوں كے علماء ہيں اس پر دلالت كرتا ہے كہ آدمى پر اپنى بيويوں كے مابين دن اور رات كى تعداد تقسيم كرے، اور اس كے ذمہ ہے كہ وہ اس ميں عدل و انصاف سے كام لے، اور اس كے ليے اس ميں ظلم كرنے كى اجازت نہيں ”
ديكھيں: الام ( 5 / 158 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
” ميرے علم ميں تو اس كا كوئى مخالف نہيں ہے كہ آدمى اپنى بيويوں كے مابين تقسيم كرے اور اس ميں اسے عدل و انصاف كرنا چاہيے “
ديكھيں: الام ( 5 / 280 ).
امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر آدمى كے پاس ايك سے زائد بيوياں ہوں اور وہ آزاد ہوں تو اس پر ان كے مابين تقسيم ميں برابرى كرنا واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہوں يا پھر اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہوں… اور اگر وہ تقسيم ميں برابرى نہيں كرتا تو وہ اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى و معصيت كا مرتكب ہوگا، اس بنا پر مظلوم بيوى كے حق ميں فيصلہ كيا جائيگا ”
ديكھيں: شرح السنۃ ( 9 / 150 – 151 ).
سوم:
خاوند كے ليے بيوى كى رضامندى كے بغير بيوى كى تنخواہ لينا جائز نہيں، شريعت اسلاميہ نے عورت كے ليے مباح كام كى ملازمت كرنا مباح كى ہے ـ ليكن يہ لازم نہيں كيونكہ اس كے اخراجات اور نان و نفقہ تو خاوند كے ذمہ ہيں ـ اور اس مال كى ملكيت بھى عورت كے ليے مباح كى ہے.
اس ليے اگر وہ اس ميں سے كچھ اپنے خاوند كو ديتى ہے تو جائز ہے، ليكن اگر خاوند اپنى بيوى كى رضامندى كے بغير اس كا مال ليتا ہے تو پھر يہ اس پر حرام ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آپ كے ليے اپنى عقل و رشد والى بيوى كى تنخواہ اس كى رضامندى سے لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح ہر وہ چيز جو رضامندى كے ساتھ وہ بطور تعاون آپ كو پيش كرے اسے لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر وہ تمہيں اس ( مہر ) ميں سے كچھ دے ديں تو اسے بڑى خوشى سے كھاؤ النساء ( 4 ).
چاہے اس كى رسيد نہ بھى ہو، ليكن اگر وہ آپ كو اس كى رسيد بھى دے دے تو اس ميں زيادہ احتياط ہے، كہ آپ كو يہ خدشہ نہ رہے كہ اس كے گھر والے يا پھر كوئى رشتہ دار طلب نہ كرے، يا پھر وہ خود ہى واپس نہ مانگنے لگے “
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 672 – 673 ).
چہارم:
جب عورت كو علم ہو كہ بيوى كا نان و نفقہ اور رہائش اور لباس خاوند كے ذمہ ادا كرنا واجب ہے، اور بيوى كو علم ہو كہ خاوند پر اپنى بيويوں ميں عدل و انصاف كرنا واجب ہے اور اسے يہ بھى علم ہو كہ خاوند كے ليے حلال نہيں كہ وہ بيوى كو ملازمت كرنے پر مجبور كرے، اور اس كى تنخواہ خاوند كو دے.
پھر اگر بيوى ديكھے كہ ان سب اشياء ميں يا كسى چيز ميں خاوند مخالفت كر رہا ہے تو بيوى كو اختيار حاصل ہے يا تو وہ يہ اميد ركھتے ہوئے كہ اس كا خاوند صحيح ہو جائيگا اور اس كى اصلاح ہو جائيگى اس ظلم پر صبر و تحمل سے كام لے.
يا پھر وہ شرعى عدالت كے ذريعہ اپنا حق حاصل كرے اور اگر نہ تو اس كے خاوند كى اصلاح ہو اور نہ ہى شرعى عدالت كے ذريعہ اسے اپنا حق ملے اور وہ خاوند كے ظلم پر صبر بھى نہ كر سكتى ہو تو پھر اسے طلاق طلب كرنے اور اپنا پورا حق لينے كا حق حاصل ہے.
ليكن اگر عورت خاوند كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت و ظلم پر صبر كر كے اپنے گھر كى حفاظت كرتى ہے تو يہ اس كے طلاق لينے سے بہتر اور اچھا ہے، كيونكہ ان دونوں حالتوں ميں سے ہر ايك كو خصوصيت حاصل ہے، كہ جس ميں كوئى رائے ظاہر كرنے سے قبل اس كو مدنظر ركھنا چاہيے.
اور اس كے ليے يہاں ممكن ہے كہ وہ اپنے خاندان كے عقل و دانش ركھنے والے رشتہ داروں سے اپنے معاملہ ميں مشورہ كرے، يا تو اس كى حالت كى اصلاح ہو جائيگى اور اس كى زندگى بہتر گزرنے لگے گى، اور يا پھر وہ اپنے ليے صبر يا طلاق ميں سے كوئى ايك اختيار كر لے، كيونكہ طلاق سے اجتناب كا حكم تو اس وقت ہے جب طلاق كا كوئى شرعى سبب نہ ہو.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے “
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) امام ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے، سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر (2055 ).
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب