خاوند اور بيوى كے ليے كونسے حالات ايسے ہيں جن ميں اجازت لينے كا خيال ركھنا ہوگا، كہ اس وقت گھر ميں محرم يا غير محرم شخص آ سكتا ہے يا نہيں ؟
اپنے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى كو داخل نہ ہونے دے
سوال: 112048
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ازدواجى گھر ايك بہت ہى شرف و تكريم والا گھر ہےاللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى دونوں كو ہى اس گھر كى حفاظت كا حكم دياہے، اور خاص كر بيوى كو اللہ سبحانہ وتعالى نے اس گھر كى امانت كى حفاظت كا حكم ديا ہے كيونكہ وہ گھر كى مالكن اوراولاد كى تربيت كرنے والى ہے.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسولكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
” تم عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوىاختيار كرو كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امان سے حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوںكو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور تمہارا ان پر يہ حق ہے كہ تمہارے گھرميں وہ شخص داخل نہ ہو جسے تم ناپسند كرتے ہو، اور اگر وہ ايسا كريں تو تم انہيںہلكى سى مار كى سزا دو، اور تم پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور ان كے لباس كا اچھےطريقہ سے حق ہے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
گھر ميں اجازت كے مسئلہ كى تفصيل درج ذيل ہے:
اول:
اگر خاوند بيوى كو اس كے رشتہ داروں ميں سے كسىمعين محرم شخص كو اپنے گھر ميں آنے كى صريح اجازت ديتا ہے، يا كسى عورت كو يا پھرخاوند نے عام اجازت دى ہو تو اس صورت ميں علماء كے متفقہ فيصلہ كے مطابق بيوى كوانہيں اپنے گھر آنے كى اجازت دينى جائز ہے.
دوم:
اگر خاوند اجازت دينے كى بجائے خاموشى اختيار كرےتو پھر بيوى ظن غالب پر عمل كرتى ہوئى اس شخص كو گھر ميں آنے كى اجازت دےگى جس كےبارہ ميں بيوى كا ظن غالب ہو كہ خاوند اس كے آنے ميں اعتراض نہيں ہوگا اسے گھر ميںآنے كى اجازت دے سكتى ہے.
ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ان لوگوں ميں شامل ہوتا ہوجس كا گھر ميں خاوند كى غير موجودگى ميں بھى آنا جائز ہو يعنى وہ محرم ہو يا پھرعورت، ليكن اگر بيوى كے ظن غالب ميں ہو كہ خاوند كسى معين شخص كے گھر آنے كو ناپسندكرتا ہے تو بيوى كے ليے خاوند كى غير موجودگى ميں اس شخص كو گھر آنے كى اجازت نہيںدينى چاہيے، اس پر سب اہل علم متفق ہيں.
الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 125 ) ميں درج ہے:
” خاوند كا اپنى بيوى پر حقوق ميں يہ بھىشامل ہے كہ وہ خاوند كے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى شخص كو داخل ہونے كىاجازت نہ دے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہرسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كسى بھى عورت كے ليے خاوند كى موجودگى ميںخاوند كى اجازت كے بغير روزہ ركھنا جائز نہيں، اور وہ خاوند كے گھر ميں خاوند كىاجازت كے بغير كسى كو آنے كى اجازت نہ دے “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ) صحيح مسلمحديث نمبر ( 1026 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووى رحمہ اللہسے نقل كيا ہے كہ:
” اس حديث ميں يہ اشارہ كيا گيا ہے كہ بيوىخاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو آنے نہيں دےگى اور يہ اس پر محمولہے كہ جب بيوى كو خاوند كى رضامندى كا علم نہ ہو، ليكن اگر خاوند كى رضامندى كاعلم ہو جائے تو پھر كوئى حرج نہيں، مثلا ايسا شخص جس كى عادت ہو كہ وہ مہمان مہمانخانے ميں لاتا ہو، چاہے خاوند غائب ہو يا گھر ميں موجود ہو تو پھر اس كے ليے خاصاجازت كى ضرورت نہيں.
حاصل يہ ہوا كہ خاوند كى اجازت كى تفصيل يا اجمالكا اعتبار ضرورى ہے.
سوم:
جب خاوند كسى معين شخص كو گھر ميں داخل كرنے كىصريحا كراہت كر دے، يا پھر اس كى غير موجودگى ميںكسى كے بھى گھر آنے كو ناپسند كرتا ہو، تو بيوى كے ليے خاوند كے گھر ميںاسے گھر ميں آنے كى اجازت دينا حرام ہے.
ليكن كيا خاوند حق حاصل ہے وہ بيوى كو اپنےوالدين يا كسى اور محرم شخص كو ملنے كے ليے گھر آنے سے روك دے ؟
اس ميں اہل علم كے دو قول پائے جاتے ہيں: ايك قولجواز كا اور دوسرا منع كا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” احناف كا صحيح مسلك يہى ہے كہ بيوى كےوالدين ہر جمعہ كے دن اپنى بچى كو ملنے آ سكتے ہيں، خاوند اپنى بيوى كو اس سے روكنہيں سكتا، اور اسى طرح سال ميں ايك بار محرم شخص اس كى بيوى سے مل سكتا ہے خاوندكے ليے روكنا جائز نہيں، مالكيہ كا بھى يہى مسلك ہے.
اور اسى طرح اگر بيوى كى اسخاوند كے علاوہ دوسرے سے اولاد ہو اور وہ چھوٹےبچے ہوں تو خاوند انہيں روزانہ ايك بار ماں سے ملنے كے ليے آنے سے نہيں روك سكتا،اور اگر عورت كے والدين نے خاوند پر بيوى كو خراب كرنے كا الزام لگايا تو پھر انكا خاوند كى خاندان سے كسى امين عورت كے ساتھ آنے كا فيصلہ كيا جائيگا، اور اس كىاجرت خاوند پر ہوگى.
شافعى حضرات كہتے ہيں كہ خاوند كو روكنے كا حقحاصل ہے، كيوكہ گھر اس كى ملكيت ہے، اور اپنے ملكيتى گھر ميں اسے روكنے كا حق حاصلہے، احناف كا قول بھى يہى ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ: خاوند اپنى بيوى كے والدكو بچى سے ملنے سے نہيں روك سكتا، كيونكہ اسے روكنے ميں قطع رحمى ہوتى ہے، ليكناگر اسے قرائن سے علم ہو كہ بيوى كے والدين كے آنے كى بنا پر كوئى ضرر اور نقصانہوتا ہے تو وہ روك سكتا ہے ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 82 ).
ان اقوال ميں راجح يہى ہے كہ بيوى كے والدين اورمحرم شخص كو خاوند نہيں روك سكتا، كيونكہ ايسا كرنے سے قطع رحمى لازم آتى ہے، اورہر حال ميں قطع رحمى كرنا حرام ہے، اس ليے حرام كام كى كوشش كرنا جائز نہيں.
بلكہ اسے تو دونوں كے مابين اصلاح كرنے كى كوششكرنى چاہيے، اور صلہ رحمى كرے، يہ سب كو معلوم ہے كہ بيوى كے رشتہ داروں كى عزت وتكريم كرنا بيوى كے ساتھ حسن سلوك اور حسن صبحت كہلاتى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمانہے:
” تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنےگھر والوں كے ليے اچھا اور بہتر ہے “
سننترمذى حديث نمبر ( 3895 ) امام ترمذى نے اس حديث كو حسن غريبصحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے الصحيحۃ ( 1174 ) ميں اسے صحيحقرار ديا ہے.
اور اگر بيوى كے كسى رشتہ دار ميں كوئى شك و شبہيا پھرظن غالب ہو كہ ان ميں سے كوئى ايكيا پھر اس عورت كے والدين خاوند اور بيوى كے مابين فساد كرانا چاہيں تو پھر اس وقتخرابى اور فساد كو دور كرنے كے ليے خاوند انہيں روك سكتا ہے، اور اس كا اس پر كوئىگناہ نہيں ہے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب