کسی اسلامی بینک میں رقم ڈپازٹ کروانے کا کیا حکم ہے؟ جیسے کہ فیصل اسلامی بینک وغیرہ؟
بینک ڈپازٹ کی اقسام اور ان کا حکم
سوال: 113852
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شرعی اصطلاح "ودیعت" میں اپنی رقم کسی دوسرے کے پاس حفاظت کرنے کے لیے رکھوائی جاتی ہے، لیکن اس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ رقم کو استعمال میں نہیں لا سکتا، اس مفہوم میں اس اصطلاح کا اطلاق ہوٹلوں اور بسا اوقات کچھ بینکوں میں موجود لاکرز پر ہوتا ہے ۔
تاہم بینک ڈپازٹ میں جسے عربی زبان میں " الوديعة البنكية " کہا جاتا ہے، اس میں ودیعت کا مذکورہ مفہوم نہیں پایا جاتا، کیونکہ بینک ان رقوم کو اسی حالت میں محفوظ نہیں رکھتا بلکہ ان کو اپنے استعمال میں لاتا ہے۔
یہ تو تھی اس کے نام کے اعتبار سے وضاحت جبکہ حکم کے اعتبار سے بینک ڈپازٹ کی دو قسمیں ہیں:
اول: پہلی قسم کو کرنٹ اکاؤنٹ بھی کہا جاتا ہے، اور اسی طرح غیر سرمایہ کاری کھاتا بھی کہتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ صارف بینک میں اپنی رقم اس شرط پر جمع کرواتا ہے کہ جب چاہے اسے واپس لے لے، اس قسم کے ڈپازٹ میں صارف کو کوئی منافع نہیں ملتا۔ ایسے ڈپازٹ یا کھاتا کھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ در حقیقت صارف کی جانب سے بینک کو قرض ہوتا ہے۔ لیکن اگر بینک سودی ہو تو پھر ایسے بینک میں رقم ڈپازٹ کروانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں بینک اس رقم کو استعمال کر کے منافع کمائے گا اور اپنی حرام سرگرمیوں میں اسے استعمال کرے گا۔
لیکن اگر صارف کو اپنی دولت محفوظ کرنے کے لیے بینک میں رکھوانے کی ضرورت محسوس ہو اور اسے کوئی اسلامی بینک بھی میسر نہ ہو تو پھر کسی بھی سودی بینک میں اپنی رقم محفوظ کروائی جا سکتی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22392 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم: سرمایہ کاری اکاؤنٹ، اس کھاتے میں یہ ہوتا ہے کہ صارف اپنی دولت بینک میں اس شرط پر جمع کرواتا ہے کہ مخصوص مدت کے بعد متفقہ مقدار میں منافع بھی حاصل کرے گا، تو اس قسم کے ڈپازٹ کی کچھ صورتیں جائز ہیں اور کچھ حرام ہیں:
تو جائز صورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ بینک اور صارف کے درمیان مضاربت کا معاہدہ ہو، اس طرح بینک صارف کی دولت کو جائز تجارتی منصوبوں میں لگا کر منافع کا مقررہ تناسب صارف کو دیتا ہے، تاہم اس صورت کے جواز کے لیے کچھ شرائط ہیں:
- بینک ان رقوم کو جائز منصوبوں میں استعمال کرے، مثلاً: نفع بخش جائز منصوبے اور گھروں کی تعمیر وغیرہ۔لہذا سودی بینکوں ، سینما گھروں کی تعمیر میں یا لوگوں کو سودی قرض دینے میں اس رقم کو استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ بینک کی جانب سے سرمایہ کاری کی نوعیت کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔
- رأس المال کی ضمانت نہ ہو، اس لیے اگر بینک کو خسارہ ہو جائے تو رأس المال واپس کرنے کا پابند نہیں ہو گا، الا کہ بینک خود خسارے میں پڑنے کا باعث ہو تو بینک رأس المال کا ضامن ہو گا۔
اس لیے کہ اگر رأس المال کی ضمانت دی جائے گی تو یہ عقد مضاربت نہیں رہے گا بلکہ یہ قرض ہو گا اور اس کی وجہ سے جو بھی منافع ملے گا وہ سود قرار پائے گا۔
- منافع کی مقدار شروع سے ہی متفقہ طور پر واضح ہو، لیکن اس مقدار کی حد بندی رأس المال کے تناسب سے نہ رکھی جائے جیسے کہ عام طور یہی کیا جاتا ہے، اس لیے ایک فریق کو کل منافع کا ایک تہائی، نصف، یا 20 فیصد منافع دیا جائے، جبکہ باقی دوسرے فریق کو ملے، یہاں پر اگر منافع مقرر نہ ہو غیر معلوم ہو تو فقہائے کرام نے بالکل وضاحت سے لکھا ہے کہ عقد مضاربت اس صورت میں بھی فاسد ہو جائے گا۔
سرمایہ کاری ڈپازٹ کی مزید حرام صورتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ:
1- رأس المال کے تحفظ کی ضمانت دی جائے، مثلاً: صارف 100 روپے جمع کروائے تو اس پر اسے 10روپے منافع بھی ملے اور 100 روپے کی ضمانت بھی دی جائے، اس صورت میں یہ سودی قرض ہے، اور بینکوں میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔
اس طریقے کو بچت اکاؤنٹ، سرمایہ کاری بانڈ، یا پھر سیونگ اکاؤنٹ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں منافع تسلسل کے ساتھ یا پھر قرعہ اندازی کے ذریعے صارفین میں تقسیم کیا جاتا ہے، جیسے کہ بانڈز میں ہوتا ہے، یہ تمام صورتیں حرام ہیں، اور ان کی تفصیلات سوال نمبر: (98152 ) اور (97896 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔
2- بینک جمع کیے گئے پیسوں کو حرام کاموں میں لگائے، مثلاً: سینما ہال بنائے، یا سیر و تفریح کی ایسی جگہیں تیار کرے جہاں پر گناہ عام ہوتے ہیں تو ایسے بینک میں بھی سرمایہ کاری کرنا حرام ہے؛ کیونکہ اس میں گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں پر تعاون ہے۔
تنظیم اسلامی کانفرنس کے تحت چلنے والے اسلامی فقہ اکادمی کی قرار داد میں ہے کہ:
"اول: کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم چاہے اسلامی بینکوں میں ہوں یا سودی بینکوں میں فقہی تناظر میں یہ قرض شمار ہوتی ہے؛ کیونکہ اس رقم کو وصول کرنے والا بینک اس رقم کا مکمل ضامن ہوتا ہے، اور جس وقت بھی صارف اس رقم کو واپس مانگے بینک اس رقم کو واپس کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
نیز بینک کا رقم کو ہر وقت واپس کرنے کی کیفیت میں ہونا قرض کے حکم پر مؤثر نہیں ہے۔
دوم: بینکوں میں جمع کروائی گئی رقوم بینکنگ لین دین کے اعتبار سے دو قسم کی ہوتی ہیں:
پہلی قسم: ایسے ڈپازٹ جن پر منافع ادا کیا جاتا ہے، جیسے کہ سودی بینکوں میں ہوتا ہے، یہ سودی اور حرام قرض شمار ہوتے ہیں، چاہے یہ ڈپازٹ کرنٹ اکاؤنٹ میں ہوں یا مخصوص مدت کے لیے یا بانڈ کی شکل میں یا سیونگ اکاؤنٹ میں ۔
دوسری قسم: وہ ڈپازٹ جو ایسے بینکوں میں جمع کروائے جائیں جو واقعی اسلامی شرعی احکامات کی پابندی کرتے ہیں، اس میں سرمایہ کاری کا معاہدہ اس اتفاق کے تحت ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری یعنی مضاربت کے لیے جمع کروائی گئی رقم پر منافع میں سے مقررہ تناسب سے حصہ ملے گا، نیز مال مضاربت پر [جو کہ قرض ہے ]اسلامی فقہی ضابطے لاگو ہوں گے، جیسے کہ بینک صارف کے لیے رأس المال کا ضامن نہیں ہو گا۔" ختم شد
"مجلة مجمع الفقه" شمارہ: 9، جلد: 1 ، ص: (931)
تو اگر فیصل بینک ان ضوابط کی پابندی کرتا ہے کہ رقم کو شرعی طور پر جائز منصوبوں پر صرف کرے، صارف کو رأس المال کی ضمانت نہ دے، منافع کی شرح متعین ہو ، تو پھر اس بینک میں سرمایہ کاری کے لیے ڈپازٹ کروانا اور اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات