كيا سركہ اسنس مثلا سيب كا بنا ہوا سركہ اور اسى طرح مائنز اور كيچپ استعمال كرنا جائز ہے ؟
مائينز اور كيچپ اور الكحل سے بنا ہو سركہ استعمال كرنا
سوال: 113941
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سيب كا بنا ہوا سركہ استعمال كرنا جائز ہے؛ كيونكہ كھانے والى اشياء ميں اصل اباحت ہے؛ اس كى دليل اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:
آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).
چنانچہ اس ميں سے وہى چيز حرام ہو گى جسے دليل حرام كرے، مثلا اس آيت ميں استثناء كردہ اشياء، اور نشہ آور اشياء.
اور اس ليے بھى كہ سلمان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے گھى اور پنير اور جنگلى گدھے كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” حلال وہ ہے جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب ميں حلال كيا ہے، اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب ميں حرام كيا ہے، اور جس سے اس نے سكوت اور خاموشى اختيار كى ہے وہ اس ميں شامل ہے جس سے معاف اور درگزر كر ديا گيا ہے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1726 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
دوم:
سركہ استعمال كرنے كے جواز ميں كوئى اختلاف نہيں چاہے وہ شراب سے ہى ہو ليكن شرط يہ ہے كہ وہ بغير كسى معالجہ كے خود ہى سركہ بن گيا ہو، حديث سے ثبوت ملتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سركہ تناول فرمايا، بلكہ سركہ كى مدح اور تعريف كى جيسا كہ مسلم شريف كى درج ذيل حديث ميں ہے:
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن مانگا تو انہوں نے جواب ديا: ہمارے پاس سركہ كے علاوہ كچھ نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سركہ منگوايا اور اسے كھانے لگے اور فرمايا: سركہ بہت ہى اچھا سالن ہے، سركہ بہت اچھا سالن ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2052 ).
ليكن اگر الكحل كو سركہ بنايا جائے تو اس كا استعمال كرنا جائز نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ہم ميں سے اكثر لوگوں پر سركہ كا معاملہ مشتبہ ہو چكا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ہمارے ہاں يہاں جزائر ميں الكحل كے كئى ايك درجے ہيں، اور ہم نہيں جانتے كہ ہم كيا كريں، تو كيا يہ الكحل كى زيادتى حرمت كے حكم ميں تو نہيں آتى، سركہ سے مراد نوش كرنا نہيں بلكہ اسے كھانوں ميں استعمال كرنا مراد ہے، مثلا خس تو كيا جس ميں يہ ڈالا جائے اسے كھانا جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” اول:
پہلى بات تو يہ ہے كہ اگر سركہ كى اصل شراب تھى اور يہ شراب كسى آدمى كے فعل كى بنا پر سركہ بن گيا ہو تو اس كا استعمال جائز نہيں، اس كى دليل اور اصل صحيح مسلم اور ترمذى اور ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
ابو طلحہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كچھ يتيموں كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا جنہيں وراثت ميں شراب ملى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے بہا دو ”
ابو طلحہ نے عرض كيا: كيا ميں اسے سركہ نہ بنا لوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس حديث ميں واضح بيان ہوا ہے كہ شراب ميں كوئى ايسا كام كرنا جس سے وہ سركہ بن جائے جائز نہيں، اور اگر اس كى كوئى گنجائش اور راہ ہوتى تو اس ليے يتيم كا مال زيادہ اولى تھا؛ كيونكہ اس كى حفاظت كرنا اور اس كى سرمايہ كارى كرنا اور اس كى احتياط كرنا واجب ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے، اور شراب بہانے ميں مال كا ضياع تھا، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ اس ميں كسى بھى قسم كى تبديلى كرنا اسے پاك نہيں كريگى، اور نہ ہى كسى حال ميں ماليت كى طرف لوٹائےگى.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول يہى ہے، اور امام شافعى اور احمد بن حنبل كا بھى يہى كہنا ہے.
دوم:
اگر خود بخود شراب سركہ بن جائے تو اس كا استعمال جائز ہے، اس كى دليل اور اصل صحيح مسلم ترمذى اور نسائى ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” سركہ اچھا سالن ہے ”
اس حديث كا عموم سابقہ حديث كے ساتھ مخصوص ہو جاتا ہے.
امام مالك رحمہ اللہ كہتےہيں:
” ميں كسى بھى مسلمان كے ليے پسند نہيں كرتا جو شراب كا وارث بنے اور شراب ركھ كر اس كا سركہ بنا لے، ليكن اگر شراب خراب ہو كر خود بخود ہى سركہ بن گئى ہو تو ميں اسے كھانے ميں كوئى حرج محسوس نہيں كرتا ” انتہى.
سوم:
اگر سركہ كى اصل شراب نہ ہو تو اس كے حلال ہونے ميں كوئى اشكال ہى باقى نہيں، كيونكہ ہر تيزابى جوس كو خل اور سركہ كا نام ديا جاتا ہے ” انتہى.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 121 ).
سوم:
مائنز اور كيچپ كھانا مباح ہے؛ كيونكہ اصل ميں اباحت ہى ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے، ليكن اگر يہ علم ہو جائے كہ ان ميں كوئى حرام چيز پائى جاتى ہے مثلا نشہ آور الكحل تو پھر جائز نہيں.
ليكن ان ميں صرف سركہ كى موجودگى كوئى نقصاندہ نہيں؛ كيونكہ ہو سكتا ہے وہ سركہ شراب كے علاوہ كسى اور سے بنا ہو جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب