كيا فٹ بال كے ميچ كرانے اور فٹ بال ٹورنامنٹ ميں شركت كرنى جائز ہے، اس طرح كہ كھلاڑيوں سے كچھ رقم جمع كر كے تين مرحلے كھيلے جائيں، اور آخر ميں جيتنے والے كو انعامات اور ہديہ جات ديے جائيں، تو كيا يہ قمار بازى اور جوے ميں شمار ہو گا ؟
فٹ بال مقابلے كرانا
سوال: 114530
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كھيلوں كے مقابلے وغيرہ جن ميں شركت كرنے والے مال ادا كرتے ہيں، اور پھر ان ميں سے كامياب ہونے والا يہ مال حاصل كر لے، يا پھر اس ميں سے اس كے ليے انعام خريدا جائے، تو يہ حرام مقابلے ہيں، مسلمان شخص كے اس ميں شريك ہونا جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ايسے ميچوں كا اقرار كرے، اور نہ ہى اس ميں كسى بھى طريقہ سے تعاون كرے.
اس ميں سے صرف وہى مقابلے مستثنى كيے جا سكتے ہيں جن ميں جہاد فى سبيل اللہ كى ٹريننگ پائى جاتى ہو، يا پھر طلب علم ميں ابھارا جائے، اور مشركوں كے شبہات كا رد سكھايا جائے، اور ان كے شرك كا بطلان بيان ہو.
اس بنا پر سوال ميں بيان كردہ صورت حرام ہے، اور يہ جوے اورقمار بازى ميں شامل ہوتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تير اندازى، يا اونٹ يا گھوڑے كے مقابلہ كے علاوہ كسى ميں بھى معاوضہ اور انعامى مقابلہ نہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1700 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2574 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3586 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2878 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
السبق: وہ انعام ہے جو دوڑ ميں حصہ لينے والا حاصل كرتا ہے.
النصل: تير اندازى.
الخف: اونٹ.
الحافز: گھوڑا.
نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ تين اشياء اس ليے ذكر كى ہيں كہ يہ جہاد فى سبيل اللہ ميں استعمال ہونے كے آلات ہيں.
ليكن بعض علماء كرام نے اس كے ساتھ ان اشياء كو بھى ملحق كيا ہے جو اس كے معنى ميں ہوں اور ان سے جھاد فى سبيل اللہ، اور دين كى نصرت و معاونت ميں مدد لى جاتى ہو، مثلا گدھوں اور خچروں كى دوڑ، اور اسى طرح دينى اور فقھى، اور قرآن مجيد اور حديث شريف حفظ كرنے كے مقابلے منعقد كرانا، يہ جائز ہيں، اور ان ميں عوض خرچ كرنا جائز ہے.
اگر دونوں جانب سے شرط ہو تو كسى بھى حالت ميں شرط لگانى جائز نہيں، كہ اگر وہ جيت گيا تو اسے مشروط چيز دى جائيگى، اور اگر دوسرا جيت گيا تو اپنى شرط ہار جائيگا، كيونكہ يہ حرام قمار بازى ميں شامل ہوتا ہے " انتہى.
ديكھيں: فقہ السنۃ ( 3 / 373 ).
شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ان دنوں يہ ديكھا جا رہا ہے كہ بہت سارے نوجوان كھيلوں كے مقابلے اور ٹورنامنٹ منعقد كرانے كى تياريوں ميں لگے ہوئے ہيں، اور يہ كسى ايك كلب يا كئى ٹيموں كے درميان ہوتا ہے، اور اس ميں طريقہ يہ اختيار كيا جاتا ہے كہ ہر ٹيم كچھ رقم جمع كرتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ ايك ٹيم رقم نہيں بھى ديتى، اور ٹورنامنٹ منعقد كرانے والى ٹيم انعامى كپ اور انعامات خريدتى ہے، اور باقى ٹيميں ان انعامات پر كھيلتى ہيں تا كہ وہ اسے جيت سكيں، اور جيتنے والى ٹيم اس كپ كو حاصل كريگى، اور باقى انعامات اول آنے والى ٹيم كو ديے جائينگے، اس سلسلہ ميں ہميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو انعام اس كى جانب سے ديا جائے جو مقابلے ميں شريك نہيں ہوا، مثلا ايسا شخص دے جو ان كھيلنے والوں ميں شامل نہيں جنہوں نے مال جمع كيا تھا، تو يہ اس قمار بازى ميں شامل نہيں.
ليكن اگر يہ انعام كھيلنے والى ٹيموں كى جانب سے ہو مثلا ہر ٹيم كچھ رقم جمع كرے اور جيتنے والى ٹيم كو مل جائے، تو يہ حرام اور جوے ميں شامل ہو گا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).
اور اسى طرح اگر تين ٹيميں ہوں اور دو ٹيموں نے رقم جمع كرائى اور تيسرى نے كچھ نہيں ديا ليكن وہ انعام جيت گئى تو بھى جائز نہيں بلكہ حرام ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تير اندازى، يا اونٹ يا گھوڑے كے مقابلہ كے علاوہ كسى ميں بھى معاوضہ اور انعامى مقابلہ نہيں "
النصل: تير اندازى ميں انعامى مقابلہ كرانا ہے.
الخف: اونٹوں كا مقابلہ كرانا ہے.
الحافز: گھوڑ دوڑ كا مقابلہ كرانا.
السبق: باء پر زبر كے ساتھ اس كا معنى وہ انعام ہے جو مقابلہ ميں ركھا جائے اور جيتنے والے كو ديا جائے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس حديث ميں يہ بيان كيا ہے كہ يہ صرف ان تين ميں جائز ہے، اس كے علاوہ كسى اور ميں نہيں، كيونكہ يہ تينوں جہاد سے تعلق ركھتے ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 433 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب