ميرے دادا جان اپنے مال ميں بہت بخيل ہيں.. اور ان كے پاس كچھ مفيد كتابيں ہيں جو انہوں نے جوانى كى حالت ميں خردي تھيں.. ان ميں كچھ كتابيں تو ايسى ہيں جو اب ماركيٹ ميں ملتى ہى نہيں، اور مفيد بھى ہيں.. ميں طالب علم ہوں اور ان كتابوں سے استفادہ كرنا چاہتا ہوں، اور وہ مجھے روكتے ہيں، تو كيا ميرے ليے چورى چھپے فريب سے وہ كتابيں ليكر اپنے پاس ركھنا اور استفادہ كرنا جائز ہے ؟
فريب كے ساتھ دادا كى كتابيں لے كر استفادہ كرنے كا حكم
سوال: 114656
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
چورى يا غصب يا اڑا كر كسى دوسرے كے مال پر زيادتى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى كسى كى اجازت كے بغير اس كا مال اور چيز لى جا سكتى ہے، چاہے وہ عاريتا ہى حاصل كى جائے، اور كتابوں كا حكم بھى باقى اموال كى طرح ہى ہے، اسى ليے جمہور علماء كرام نے اسے چورى كرنے والے كا ہاتھ كاٹنے كا كہا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر اس نے مصحف يعنى قرآن مجيد چرايا تو ابو بكر اور قاضى كہتے ہيں اس ميں ہاتھ نہيں كاٹا جائيگا، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے…
اور ابو الخطاب نے ہاتھ كاٹنے كو اختيار كيا ہے، اور كہا ہے: امام احمد كى كلام كا ظاہر يہى ہے، امام احمد سے علمى كتاب چرا كر پڑھنے والے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
ہر وہ چيز جس كى قيمت تين درہم تك پہنچ جائے اس ميں ہاتھ كاٹا جائيگا.
چورى كے متعلق عمومى آيت كى بنا پر امام مالك اور شافعى اور ابو ثور اور ابن منذر كا قول بھى يہى ہے…
اور ہمارے اصحاب كے ہاں كتب فقہ اور كتب حديث اور باقى سارے علوم شريعہ كى كتب چرانے ميں ہاتھ كاٹنے كے وجوب ميں كوئى اختلاف نہيں " انتہى مختصرا.
ديكھيں: المغنى ( 9 / 98 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" مالكيہ، شافعيہ، حنابلہ اور احناف سے ابو يوسف كا مسلك ہے كہ جس نے بھى مفيد كتاب چورى كى اس پر حد جارى ہو گى، مثلا تفسير اور حديث اور فقہ وغيرہ علم كى كتاب جب مسروقہ كى قيمت نصاب تك پہنچ جائے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 193 ).
اس ليے آپ كے ليے يہ كتابيں اڑانا اور دھوكہ و فريب سے حاصل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى آپ يہ كتابيں اپنى ملكيت ميں ركھ سكتے ہيں، بلكہ آپ كو داد سے اجازت لينا چاہيے، اگر تو وہ آپ كو اجازت دے ديں تو ٹھيك، وگرنہ آپ كو يہ كتابيں لينے كا كوئى حق نہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كسى بھى شخص كا مال اس كى رضامندى كے بغير حلال نہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 20172 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7662 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر طلب علم كے ليے يہى ايك طريقہ نہيں رہ گيا كہ دوسروں كى كتابيں اڑائى جائيں، بلكہ آپ اپنے داد كے ساتھ اس پر متفق ہو سكتے ہيں كہ اس كے گھر جا كر يہ كتابيں پڑھ ليں اور مطالعہ كريں، اور وہاں سے لے كر نہ جائيں.
يا پھر عام لائبريرى جائيں ان شاء اللہ آپ كو بہت سارى مفيد كتابيں مل جائينگي.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب